حضرت مجدد الف ثانی ؒفرماتے ہیں جس وقت علی ہجویری ؒ نے لاہور میں قدم رکھا تو لاہور شہر شہروں کا قطب بنادیا گیا بعض اسلامی کتابوں میں لاہور کیلئے قطب ارشاد کا لقب تحریر ہے گویا یہ شہر ہر دور میں فقراء اور اولیاء کا مسکن رہا ہے جس کی طویل تاریخ موجود ہے۔
راقم کو بھی اس شہر میں اللہ کے ولیوں کی زیارت کا شرف حاصل رہا ۔ زمانہ طالب علمی اور اسکے بعد حافظ شفیق الرحمن کے ساتھ حضرت واصف علی واصف کی پر انوار محفلوں میںشریک ہونے کی سعادت میسر آئی۔ شعیب عارف کے ہمراہ تھلہ کوارٹر میں قبلہ طارق درانی کے عارفانہ خیالات سے استفادہ ہوا ۔ اسی طرح زعیم قادری کے والد سلیم حسین قادری صاحب کے ہمراہ سید نعیم حسین قادری کی مجالس عالی سے فیض حاصل ہوا اور شیخ نصیر احمد جو آڈٹ آفس کے بڑے افسر تھے کے ساتھ حضور قبلہ سید محمد وجیہہ السیماء عرفانی کی ایمان افروز محفلوں میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ مندرجہ بالا تمام بزرگان روحانی تجلیات اور عرفان کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں بھی اعلیٰ ترین ڈگریوں کے حامل تھے‘ انکی محفلوں میں بڑے نامور محقق قلم کار دانشور بیوروکریٹ اور وزیر مشیر بھی گھنٹوں باادب بیٹھ کر رہنمائی حاصل کرتے کیونکہ آجکل سید صاحب کے عرس مبارک کے دن ہیں لہٰذا اپنی بات کو ان کی عظیم ذات تک محدود رکھوں گا ۔ شیخ نصیر احمد کے ہمراہ میں اور میرے والد بزرگوار ماڈل ٹائون گئے جہاں محفل جاری تھی ۔ راقم پیچھے بیٹھ گیا والد صاحب کو شیخ نصیر احمد نے حضرت صاحب کے قریب بٹھادیا ۔ حال احوال پوچھنے کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا ۔ محفل میں موجود افراد اپنے مسائل بیان کرتے ۔ قبلہ مرشد کچھ کیلئے دعا اور کچھ کو ریفر کر دیتے ۔
جب حضرت صاحب کی نظر راقم پر پڑی تو اشارے سے آگے بلایا نام اور کام کا دریافت کیا پھر گویا ہوئے کہ نماز کے دوران آنکھیں بندنہ کیا کرو ۔ راقم نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی قبلہ فرمانے لگے یارتم تھری پیس سوٹ کیوں نہیں پہنتے ؟ میرے لئے ایک مذہبی رہنما کے منہ سے یہ سوال عجیب تھا میں تو خاموش رہا مگر والد جذباتی ہو کر بولے حضرت صاحب کمال ہے ۔ آپ فرنگیوں کے لباس کا فرما رہے ہیں اس پر قبلہ پیر صاحب مسکرائے اور فرمایا اسلام ایک آفاقی دین ہے جس میں لباس ستر پوشی اور حیاء کے تقاضے پورے کرتا ہے وہی لباس اسلامی ہے ۔ تمام زمانے اور تمام زبانیں اللہ کی ہیں بزرگوار بتائیے اگر پورا یورپ اسلام قبول کرلے تو وہ کون سی زبان بولے گا اور کون سا لباس اختیار کریگا؟ ہمیں دل مسلمان کرنے ہیں پھر میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا بیٹے سوٹ جاپان سے لائو بوٹ جرمن سے اور ہیٹ روم سے منگوا کر زیب تن کرو بہت خوبصورت لگو گے مگر ایک وعدہ مجھے دو کہ تم دنیا کے کسی کونے میں ہو جب اذان کی آواز کانوں میںآئے تو تمہارا رخ کعبتہ اللہ کی جانب ہوجانا چاہیے یہی فرق ہے کافر اور مومن میں۔نماز ہی برائیوں سے دور اور اللہ کے قریب لاتی ہے ۔
قبلہ سید محمد وجیہہ السیماء عرفانی کی زبان و بیان میں اس قدر تاثیر تھی کہ بات قلب و جاں میں سرایت کر گئی انہی کے فیض کے باعث نماز کیساتھ باقی رحمتوں کے گراں قدر خزینے میسر آئے ۔ آپ درس رشدو ہدایت کیساتھ اپنے عقیدت مندوں مریدین اور معاشرے میں خیروبرکات کیلئے نہ صرف دعاگو ہوتے بلکہ انفرادی و اجتماعی معاملات میں رہنمائی اور معاونت فرماتے ۔ دوسرے بزرگوں کی مانند خدام کے قائل نہ تھے جو لوگ درس و تدریس میں آپکے معاون ہوتے ان کو باقاعدہ ماہانہ اعزازیہ عطا ہوتا جس میں وقت کیساتھ اضافہ ہوتا رہتا ۔ آپکو عربی اور انگریزی ادب کیساتھ جملہ اصناف علوم پر دسترس حاصل تھی۔ اردو انگریزی پنجابی سمیت دیگر زبانوں پر ملکہ حاصل تھا آپ بیک وقت صوفی بزرگ عالم باعمل محقق صحافی تھے ۔
قرآن کا ترجمہ تفسیر آسان اور دلپذیر انداز میں فرماتے کہ سننے والے کے دل میں نقش ہو جاتا ۔ مفہوم کو سمجھانے کیلئے مختلف زبانوںمیں وضاحت بیان کرتے ۔ تحریک پاکستان کے غازی مجاہد ہونے کے ناطے نوائے وقت جیسے تحریکی ادارے سے کئی سال منسلک رہے ۔ آفاقی سوچ کے باعث سطحی اور فروعی تعصبات سے پاک علم و دانش کو ذریعہ ابلاغ رکھا جس سے عقیدت مندوں کو صراط مستقیم تک رہنمائی فرماتے ۔ حضرت سید محمد وجیہہ السیماء عرفانی کے چار روزہ عرس کی تقریبات اختتام پذیر ہو چکی ہیں جس میں علماء کرام مشائخ و عظام نے عصر حاضر کے مسائل بیان کئے‘ جس سے اہل دل و ایمان فیض یاب ہوئے ۔
راقم کو بھی اس شہر میں اللہ کے ولیوں کی زیارت کا شرف حاصل رہا ۔ زمانہ طالب علمی اور اسکے بعد حافظ شفیق الرحمن کے ساتھ حضرت واصف علی واصف کی پر انوار محفلوں میںشریک ہونے کی سعادت میسر آئی۔ شعیب عارف کے ہمراہ تھلہ کوارٹر میں قبلہ طارق درانی کے عارفانہ خیالات سے استفادہ ہوا ۔ اسی طرح زعیم قادری کے والد سلیم حسین قادری صاحب کے ہمراہ سید نعیم حسین قادری کی مجالس عالی سے فیض حاصل ہوا اور شیخ نصیر احمد جو آڈٹ آفس کے بڑے افسر تھے کے ساتھ حضور قبلہ سید محمد وجیہہ السیماء عرفانی کی ایمان افروز محفلوں میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ مندرجہ بالا تمام بزرگان روحانی تجلیات اور عرفان کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں بھی اعلیٰ ترین ڈگریوں کے حامل تھے‘ انکی محفلوں میں بڑے نامور محقق قلم کار دانشور بیوروکریٹ اور وزیر مشیر بھی گھنٹوں باادب بیٹھ کر رہنمائی حاصل کرتے کیونکہ آجکل سید صاحب کے عرس مبارک کے دن ہیں لہٰذا اپنی بات کو ان کی عظیم ذات تک محدود رکھوں گا ۔ شیخ نصیر احمد کے ہمراہ میں اور میرے والد بزرگوار ماڈل ٹائون گئے جہاں محفل جاری تھی ۔ راقم پیچھے بیٹھ گیا والد صاحب کو شیخ نصیر احمد نے حضرت صاحب کے قریب بٹھادیا ۔ حال احوال پوچھنے کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا ۔ محفل میں موجود افراد اپنے مسائل بیان کرتے ۔ قبلہ مرشد کچھ کیلئے دعا اور کچھ کو ریفر کر دیتے ۔
جب حضرت صاحب کی نظر راقم پر پڑی تو اشارے سے آگے بلایا نام اور کام کا دریافت کیا پھر گویا ہوئے کہ نماز کے دوران آنکھیں بندنہ کیا کرو ۔ راقم نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی قبلہ فرمانے لگے یارتم تھری پیس سوٹ کیوں نہیں پہنتے ؟ میرے لئے ایک مذہبی رہنما کے منہ سے یہ سوال عجیب تھا میں تو خاموش رہا مگر والد جذباتی ہو کر بولے حضرت صاحب کمال ہے ۔ آپ فرنگیوں کے لباس کا فرما رہے ہیں اس پر قبلہ پیر صاحب مسکرائے اور فرمایا اسلام ایک آفاقی دین ہے جس میں لباس ستر پوشی اور حیاء کے تقاضے پورے کرتا ہے وہی لباس اسلامی ہے ۔ تمام زمانے اور تمام زبانیں اللہ کی ہیں بزرگوار بتائیے اگر پورا یورپ اسلام قبول کرلے تو وہ کون سی زبان بولے گا اور کون سا لباس اختیار کریگا؟ ہمیں دل مسلمان کرنے ہیں پھر میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا بیٹے سوٹ جاپان سے لائو بوٹ جرمن سے اور ہیٹ روم سے منگوا کر زیب تن کرو بہت خوبصورت لگو گے مگر ایک وعدہ مجھے دو کہ تم دنیا کے کسی کونے میں ہو جب اذان کی آواز کانوں میںآئے تو تمہارا رخ کعبتہ اللہ کی جانب ہوجانا چاہیے یہی فرق ہے کافر اور مومن میں۔نماز ہی برائیوں سے دور اور اللہ کے قریب لاتی ہے ۔
قبلہ سید محمد وجیہہ السیماء عرفانی کی زبان و بیان میں اس قدر تاثیر تھی کہ بات قلب و جاں میں سرایت کر گئی انہی کے فیض کے باعث نماز کیساتھ باقی رحمتوں کے گراں قدر خزینے میسر آئے ۔ آپ درس رشدو ہدایت کیساتھ اپنے عقیدت مندوں مریدین اور معاشرے میں خیروبرکات کیلئے نہ صرف دعاگو ہوتے بلکہ انفرادی و اجتماعی معاملات میں رہنمائی اور معاونت فرماتے ۔ دوسرے بزرگوں کی مانند خدام کے قائل نہ تھے جو لوگ درس و تدریس میں آپکے معاون ہوتے ان کو باقاعدہ ماہانہ اعزازیہ عطا ہوتا جس میں وقت کیساتھ اضافہ ہوتا رہتا ۔ آپکو عربی اور انگریزی ادب کیساتھ جملہ اصناف علوم پر دسترس حاصل تھی۔ اردو انگریزی پنجابی سمیت دیگر زبانوں پر ملکہ حاصل تھا آپ بیک وقت صوفی بزرگ عالم باعمل محقق صحافی تھے ۔
قرآن کا ترجمہ تفسیر آسان اور دلپذیر انداز میں فرماتے کہ سننے والے کے دل میں نقش ہو جاتا ۔ مفہوم کو سمجھانے کیلئے مختلف زبانوںمیں وضاحت بیان کرتے ۔ تحریک پاکستان کے غازی مجاہد ہونے کے ناطے نوائے وقت جیسے تحریکی ادارے سے کئی سال منسلک رہے ۔ آفاقی سوچ کے باعث سطحی اور فروعی تعصبات سے پاک علم و دانش کو ذریعہ ابلاغ رکھا جس سے عقیدت مندوں کو صراط مستقیم تک رہنمائی فرماتے ۔ حضرت سید محمد وجیہہ السیماء عرفانی کے چار روزہ عرس کی تقریبات اختتام پذیر ہو چکی ہیں جس میں علماء کرام مشائخ و عظام نے عصر حاضر کے مسائل بیان کئے‘ جس سے اہل دل و ایمان فیض یاب ہوئے ۔