مولانا مجیب الرحمن انقلابی
ملک کے معروف دینی ادارے جامعہ اشرفیہ لاہور کے سابق شیخ الحدیث اور عالمِ اسلام کی عظیم علمی و اصلاحی شخصیت حضرت مولانا عبد الرحمن اشرفی کا تعلق ان علمائِ حق سے ہے جو کہ تمام زندگی قال اللہ و قال الرسول کی صدا بلند کرتے رہے اور پھر لاکھوں لوگوں کو شرک و بدعت اور ضلالت و گمراہی کے گڑھوں سے نکال کر ان کے دلوں میں توحید الہٰی اور عشق نبیؐ کی شمعیں روشن کر کے ان کے ایمان کی حفاظت اور جنت کی طرف راہنمائی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
آپ کی خوبصورت، باوقار اور ایمان پرور شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا آپ ایک کامیاب مدرس، زبردست خطیب، ذہانت و ظرافت، حاضر جوابی اور نفاست طبع کے حسین مرقع اور پوری دنیا میں جامعہ اشرفیہ لاہور کی پہچان، تعارف اور ’’ٹائیٹل‘‘ تھے، آپ نے کم و بیش پچاس سال تک جامعہ اشرفیہ لاہور میں درس و تدریس اور خطابت کے فرائض سر انجام دیئے تمام مسالک کے ہاں انتہائی قابل احترام تھے جس کی وجہ سے دیگر مسالک کے لوگ بھی بڑی محبت و عقیدت کے ساتھ آپ کے جمع المبارک کے اجتماعات میں آتے...آپ کے والد حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے خلفہ مجاز تھے اور انہی کے نام کی نسبت سے لاہور میں جامعہ اشرفیہ کے نام سے معروف دینی ادارہ قائم کیا، مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم پر آپ کے والد حضرت مولانا مفتی محمد حسن نے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع? اور دیگر علماء دیوبند کے ہمراہ مسلم لیگ کا ساتھ دیتے ہوئے تحریک پاکستان میں بھر پور حصّہ لیا جس کے نتیجہ میں پاکستان بننے کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان پر آزادی کا پرچم لہرانے کی سعادت ’’بزم اشرف‘‘ کے روشن چراغ اور دار العلوم دیوبند کے قابل فخر سپوت علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو حاصل ہوئی، مولانا عبدالرحمن اشرفی بھی حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی شخصیت اور تصنیفات سے بڑے متاثر تھے، فرقہ واریت کے خاتمہ اور اتحاد بین المسلمین کے فروغ کیلئے مولانا اشرف علی تھانوی کے اس زریں اصول کہ ’’اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں اور کسی کے مسلک کو چھیڑو نہیں‘‘ کو متعارف کرانے میں آپ بنیادی کردار ادا کیا اور یہ اصول آج پاکستان کی قومی و صوبائی اور دیگر امن کمیٹیوں کے ضابطہ اخلاق کا بنیادی حصہ بن چکا ہے اللہ تعالیٰ نے مولانا عبد الرحمن اشرفی کو بے پناہ محبوبیت و مقبولیت سے نواز ا جس مجلس ومحفل میں ہوتے ’’میر محفل‘‘ اور مرکز نگاہ بن جاتے جوبھی آپ سے ملتا آپ کے اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار سے متاثر ہو کر آپ ہی کا ہو کر رہ جاتا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوت استدلال، الفاظ پر گرفت، غضب کا حافظہ اور ذہانت کی دولت سے خوب نوازا تھا، مشکل سے مشکل الفاظ بھی بڑی خوبصورتی اور تسلسل روانی کے ساتھ ’’تسبیح‘‘ کے دانوں کی طرح ایک خاص ترتیب اور انداز کے ساتھ آپ کے منہ سے ادا ہوتے چلے جاتے آپ کسی بھی مسئلہ کو سمجھانے کیلئے قرآن و حدیث سے دلائل و براہین کے انبار لگا دیتے تھے کہ دیکھنے اور سننے والا انگشت بدندان رہ جاتا۔
آپ کا دماغ معلومات کا خزانہ اور کمپیوٹر محسوس ہوتا، دوران تقریر حضور اکرمؐ، صحابہ کرام ؓ واہل بیت عظام، اولیاء کرام اور اکابرین و اسلام کے حالات و واقعات کو انتہائی تسلسل اور پر اثر انداز میں بیان کرتے کہ سننے والا متا ثر ہوئے بغیر نہ رہتا، آپؐ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ ہر کام میں سے اسلام،پاکستان اور مسلک کی خدمت کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نکال لیتے، مشکل اور پیچیدہ مسائل کو منٹوں میں حل کر لیتے آپ اتحاد امت کے بہت بڑے داعی و علمبردار تھے، اہل سنت کے تمام مسالک کے اتحاد کیلئے ہمیشہ سرگرم عمل رہے...، مولانا عبد الرحمن اشرفی ایک سچّے عاشق رسول تھے حضور اکرمؐ کا نام مبارک لیتے ہوئے عقیدت و محبت سے آبدیدہ ہو جاتے، جمعۃ المبارک کو بعد ا ز نماز عصر جامع مسجد حسن میں بڑی باقاعدگی کے ساتھ درود شریف کی محفل ہوتی ہر سال 12 ربیع الاول کو حضور اکرمؐ کے’’موئے مبارک‘‘کی زیارت اپنی نگرانی میں کراتے، ختم بخاری شریف اور رمضان المبارک کی ستائسویں شب کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں تقریر کرتے اورپھر بڑے ہی رقت آمیز انداز میں دعاء کراتے جس میں علماء و طلباء سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہزاروں افراد شرکت کرتے، آپ نے ہمیشہ شہرت اور سرکاری منصب سے راہِ فرار اختیار کرتے سرکاری منصب و حاکمیت پر مسجد و مدرسہ اورمنبر و محراب کو ترجیح دی لیکن اس کے باوجود لاکھوں لوگ آپ سے عقیدت و محبت رکھتے تھے...خدمت خلق کا جذبہ بھی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، غریب و مستحق افراد اور طلبہ کی ہر ممکن مدد کرتے مخلوقِ خدا کی تکلیف پر تڑپ اٹھتے اور ان کیلئے رو رو کر دعائیں کرتے معاشی تنگی اور قرض کے بوجھ سے تنگ افراد کی طرف سے خودکشی کے جواز کا فتویٰ پوچھنے، زلزلہ زدگان اور سیلاب متاثرین کے جانی و مالی نقصان پر انتہائی پریشان و مضطرب ہو کر خطبات جمعۃ المبارک، ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے ذریعہ آپ نے پاکستان سمیت پوری دنیا میں اعلان کر دیا کہ ان حالات میں مسلمان نفلی حج و عمرہ میں اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے انسانیت کی خدمت، سیلاب متا ثرین اور خود کشیوں پر مجبور لوگوں کی مالی مدد کریں اس سے کئی حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔ آپ فرماتے تھے کہ معاشرہ میں غربت و سفید پوشی کی وجہ سے ماں باپ اپنی بچیوں کی شادی کے اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے شدید پریشان ہیں جوان بچیاں بڑھاپے کی جانب بڑھ رہی ہیں شادی کیلئے ان کی مالی مدد کرنا خدا کو راضی کرنے اور جنت کے حصول کا آسان ذریعہ ہے۔ آپ کے علمی و روحانی مقام کی پوری دنیا معترف ہے آپ کی تفسیر’’نکات القرآن‘‘ سمیت دیگر تصانیف علمی حلقوں میں انتہائی مقبول ہیں،سیرت النبی ؐ کے موضوع پر کئی کئی گھنٹے اپنے مخصوص انداز اور عشق نبویؐ میں ڈوب کر بیان کرتے تو عقیدت و محبت میں خودبھی روتے اور سامعین کو بھی رلاتے۔
آپ کی روشن زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی تمام زندگی دعوت و تبلیغ، درس وتدریس، تحریر و تصنیف، قیام امن اتحاد بین المسلمین کے فروغ، اسلام اور وطن عزیز کی سالمیت اور مختلف باطل فتنوں کے علمی تعاقب میں گزری۔ آخر کار 22جنوری 2011 ء کو علم کا یہ آفتاب و ماہتاب اپنے بیٹوں صاحبزادہ مولانا احمد حسن اشرفی، مولاناحماد حسن اشرفی اورمولانا محمد حسن اشرفی سمیت ہزاروں شاگردوں اور لاکھوں عقیدت مندوں کو جدائی کا غم دیکر اللہ پاک کے حضور حاضر ہوگیا ،آپ کے وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا بھرمیں پھیل گئی… ذرائع ابلاغ نے بریکنگ نیوز کے طور پر خبر نشر کی،حرمین شریفین اور دارالعلوم دیوبند سمیت پوری دنیا میں آپ کے درجات کی بلندی کیلئے خصوصی دْعائیں کی گئیں...۔ نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مولانا احمد حسن اشرفی نے پڑھائی جس میں علماء کرام اور طلباء سمیت تمام مسالک سے وابستہ ہزاروں افراد نے شرکت کی، آپ کو اچھرہ کے شیر شاہ قبرستان لاہور میں دفن کیا گیا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
عاشق رسولؐ … حضرت مولانا عبدالرحمٰن اشرفیؒ
Jan 24, 2025