20جمادی الثانی ، حضرت فاطمتہ الزہر ا ؓ
جگر گوشہ رسولؐ بی بی فاطمتہ الزہرا ؓ حضورؐ کی سب سے چھوٹی دختر نیک اختر تھیں۔ جن کی پیدائش 20 جمادی الثانی کو اُس زمانے میں ہوئی جب پردوں کو آگ لگ جانے سے خانہ کعبہ جل گیا تھا اور حلال کمائی سے اہلِ مکہ دوبارہ تعمیر کر رہے تھے۔ رحمت للعالمین ؐکی عمر مبارک اُس وقت تقریباً 35 برس تھی۔جب حضرت خدیجتہ الکبریؓکی وفات ہوئی تو بی بی فاطمتہ الزہرا ؓکی عمر تقریباً 14 برس تھی۔ اموالمومنین حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے تقریباً تین سال بعد حضورؐنے ہجرت فرمائی اور مدینہ یثرب پہنچ کر اپنی لختِ جگر کو بھی وہاں بلوا لیا۔ حضرت فاطمہؓ کی بڑی بہنوں کے نام حضرت زینبؓ، حضرت رقعیہؓ اور اُم کلثومؓ تھا۔ سیرت و کردار میں بی بی فاطمہؓ اسلامی عورت کی مثال تھیں۔ میدانِ مباہل میں جب نجران کے راہبوں نے کہا کہ آپؐاپنے بچوں، جوانوں اور عورتوں کو لے کر آئیںاور ہم اپنے بچوں، جوانوں اور عورتوں کو لے کر آتے ہیں۔ تو حضورؐ بچوں میں حسینؓ کو جوانوں میں حضرت علیؓ کو اور عورتوں میں اپنی پارہ جگر بی بی فاطمہؓ کو ساتھ لے کر گئے۔ حضورؐ کو آپؓ سے بے پناہ محبت تھی۔ آپؐ کا معمول تھا کہ مسجد سے سیدھے بیٹی کے گھر جاتے وہاں تھوڑی دیر قیام فرماتے اور پھر کسی دوسرے کام میں مشغول ہوتے۔ اگر بی بی فاطمہ ؓ کبھی حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو پیار و محبت سے بٹھاتے تھے۔ بچپن میں جب معلوم ہوا کہ ابو جہل نے حضورؐ پر اوجھڑی پھینکی ہے تو آپؓ دوڑی ہوئی گئیں ۔ اپنے والد محترم کا سر پانی سے دھویا اور ابوجہل کو خوب ڈانٹا۔غزوئہ اُحد میں جب حضور پاکؐ زخمی ہو گئے تو آپؓ بے قرار ہو گئیں۔ حضرت علیؓ ڈھال میں پانی لائے اور پیاری بیٹی نے دوجہاںکے والیؐ کی مرہم پٹی کی۔ ایک دفعہ اپنی پیاری بیٹی کے گلے میں سونے کا ہار دیکھ کر آپؐ نے فرمایا اے بیٹی ہار اُتار دے کیونکہ لوگ کہیں گے کہ اللہ کے رسولؐ کی بیٹی نے گلے میں آگ کا ہار پہنا ہوا ہے۔ حضورؐ کو اپنی جگر گوشہ سے بے حد پیار تھا۔ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے بیٹی سے مل کر جایا کرتے تھے۔ اور واپس آ کر سب سے پہلے اپنی پیاری بیٹی سے ملتے تھے۔ مدینے آنے کے دوسرے سال رمضان المبارک میں حضورؐ نے بی بی فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے کر دیا اور فرمایا "میں نے تمہارا نکاح ایک ایسے شخص سے کر دیا ہے جو دنیا میں بھی سردار ہے اور آخرت میں بھی" ۔ مہر چار سو مشقال چاندی مقرر ہوا۔ چھوہارے تقسیم کئے گئے۔ حضرت علیؓ نے زرہ بیچ کر مہر ادا کیا۔ جہیز میں یہ چیزیں تھیں۔ ایک چارپائی، ایک سادہ بستر، ایک چادر، ایک مشکیزہ، مٹی کے دو گھڑے، ایک پیالہ ، ایک چکی،اور تکیہ۔ دوجہاںؐ کے سردار کی بیٹی پیدل چل کر اپنے شوہر کے گھر پہنچیں۔گھر کا کام کاج بی بی فاطمہؓ خود کیا کرتی تھیں۔ چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔ ایک دفعہ حضورؐ کے پاس لونڈی غلام آئے اور آپؐ نے صحابہ کرامؓ میں تقسیم کر دئیے۔ گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے لئے جب بیٹی نے غلام یا لونڈی کی آپؐ سے درخواست کی تو شفیق باپ نے جواب دیا " اے لخت ِ جگر خدمت گار تو دنیا میں آرام دیتے ہیں ، میں تمہیں ایسی چیز بتاتا ہوں جو آخرت میں آرام اور نفع پہنچانے والی ہے۔ جب سونے لگو تو 33 مرتبہ سبحان اللہ 33 مرتبہ الحمد للہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ دن بھر کی تمام تھکاوٹ دور ہو جائے گی"۔ حضورؐ نے فرمایا "فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جو اسے ناراض کرے گا وہ مجھے ناراض کرے گا"۔ (بخاری)۔ اس قدر محبت اور پیار کے باوجود آپؐ نے فرمایا کہ" بغیر عمل جذبہ اطاعت اور اللہ کی رحمت کے محض سفارش کام نہ آ سکے گی عمل کرو اسی میں نجات ہے ـ حضورؐ سے محبت رکھنا ہر مسلمان کا اولین فرض ہے بلکہ جس کے دل میں آپؐ کی محبت نہ ہو وہ مسلمان ہی نہیں ہو سکتا۔ بی بی فاطمہ ؓ کو اپنے شفیق باپ سے والہانہ محبت تھی۔جب تک آپؐ کو دیکھ نہ لیں چین نہ آتا تھا۔ اس محبت کا نتیجہ تھا کہ حضورؐ کے بعد صدمے کو برداشت نہ کر سکیں۔ دن رات روتی رہتی تھیں۔ دنیا سے بے رغبتی سی ہو گئی۔ بیمار ہو گئیں اور آخر اسی صدمہ کی وجہ سے آپؐکے تقریباً چھ ماہ بعد جوار رحمت میں 3 جمادی الثانی کو جا ملیں۔ آپؓ کے تین بیٹے حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ اور حضرت محسنؓ اور تین بیٹیاں حضرت زنیبؓ، حضرت اُم کلثومؓ اور حضرت رقیہؓ تھیں۔ حضرت محسنؓ اور حضرت رقعیہؓ کا انتقال بہت چھوٹی عمر میں ہی ہو گیا تھا۔اُن کی وفات کے وقت بی بی فاطمہؓ کی عمر تقریباً 28 سال تھی اور ہجرت کا گیارواں سال تھا۔ آپؓ کو رات کے وقت جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ نمازِ جنازہ حضرت علیؓ نے پڑھائی۔ سیدہ طاہرہؓ کی ولادت 20 جمادی الثانی کو ہوئی تھی۔ آپؓ ایک متقی، صابرہ، شرم و حیاکی پیکر اور صبر و شکر کا اعلیٰ نمونہ تھیں۔ عملی زندگی میں بھی بے مثال تھیں۔ باوجود تنگدستی کے کبھی شکوہ شکایت نہ کی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا" چال ڈھال اور گفتگو میں سیدہ فاطمہ ؓ جناب رسولؐ سے بہت مشابہت رکھتی تھیںــ"۔حضور ؐ نے فرمایا "فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے اس کو رنج دینا مجھے رنجیدہ کرنا ہے"۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں بی بی فاطمہؓ سے زیاہ سچا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ حضورکریم ؐ کا فرمان ہے" اے لختِ جگر تکلیف پر صبر کرو۔ تم کو یہی کافی ہے کہ تم جنت میں تمام عورتوں کی سردار ہو گی"۔ سردارِ دوجہاں ؐ کی جگر گوشہ قیامت تک آنے والی خواتین کے لئے منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جنہوں نے جنت کی سرداری کی خوش خبری دنیا میں ہی سن لی مگر سادگی، عبادت، ریاضت اور صبر و شکر کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ خود بھوک برداشت کر لی مگر آپؓ ؓکے در سے کبھی کوئی سوالی خالی ہاتھ نہ گیا۔