جماعت اسلامی اور اسکے امیر صاحبان

جماعت اسلامی قیام پاکستان سے قبل کی ہے ، قیام سولہ اپریل 1948میں عمل میں آیا ۔جماعت اسلامی لوگوں کو پوری زندگی میں اللہ اور اسکے رسول ؐ کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت دیتی ہے ،منافقت اورشرک چھوڑنے کی تلقین کرتی ہے۔ان باتوں پر جماعت کے لیڈرز تو عمل کرتے ہیں مگر ایسے عہدیدواروں اور ورکروں کی تعداد کم ہے ۔ ان تمام رہنمائوں پر جماعت کا اصل رنگ دیکھا جاتا ہوتا تو آج یہ سیاسی جماعت ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن چکی ہوتی ۔ جماعت کے وہ ہیرو جھنیں مل کر دل خوش ہوا ان میں پروفیسر غفور احمد ، قاضی حسین احمد اورسید منور حسن کے نام سر فہرست ہیں ۔ یہ صاحب کردار تھے جو دنیا سے جا چکے ہیں مگر دلوں میں آج بھی بستے ہیں ۔سیدمنور حسن نے 1977کے الیکشن میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لیکر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے انکی زوجہ بھی ممبر قومی اسمبلی رہ چکی ہیں۔سیدمنور حسن بیس سال جماعت اسلامی کے سیکٹری جنرل اور پانچ سال امیر جماعت رہے۔ جب وہ امیر جماعت اسلامی تھے تو بیٹے کی دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا۔ جہاں مہمانوں کی خاطر تواضح سموسوں ، پکوڑوں اور چائے سے کی گئی حالانکہ ولیمے میں وزیراعظم، گورنرز ، وزرا اور اعلی حکام شریک تھے۔ اسی طرح جب بیٹی کی شادی کی تو بے شمار تحائف ملے جو سب اٹھا کر جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرا دئے ۔ساری عمر اپنے سسرال کے دئے گئے سو گز مکان میں گزارے ۔انکا جنازہ بھی اسی مکان سے اٹھا یا گیا ہمیشہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے رہے ۔ اگر جماعت کے کسی کام پر کئی جانا ہوتا تو پارٹی کی گاڑی کا استعمال کرتے اسیطرح کپڑوں کے تین چار جوڑے رکھتے تھے ۔ انہیں کو بدل بدل کر پہنتے رہتے جس کی وجہ سے یہ پرانے لگنے لگتے مگر کیا مجال کہ بے ضرورت نئے کپڑے خریدنے کا سوچا ہو ۔ آخری عمر میں آپ سترہ ہزار روپوں کے مقروض تھے اسی فکر میں پریشان رہتے کہ کوئی وسیلہ بن جائے کہ دنیا سے رخصت ہونے سے قبل میں یہ قرض ادا کر سکوں اوراس میں کامیاب بھی ہوئے ۔ ہر نماز کے بعدچہرہ آنسوں سے تر دیکھا جاتا جو یہ سوچتے ہیں کہ سیاست بہت مشکل کام ہے اس کے لئے بے شمار پیسہ چاہیے ۔ مگر جب سو گز کے مکان میں رہنے والوں کو اسمبلی میں دیکھتے ہیں تو سوچ بدل جاتی ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ جس بندے کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو لوگ اس کے گرد خود بخود کھچے چلے آتے ہیں ۔ جماعت کی خوبی یہ رہی ہے کہ انسانوں کے لئے ویلفیر کے کام کرتے رہتے ہیں ۔ اسپتال بناتے ہیں ، مشکل گھڑی میں امدادی کاموں میں بھی بڑچڑ کر حصہ لیتے ہیں ۔ ان سے اس بات پہ اختلاف ہے کہ یہ کالجوں ،یونیورسٹیوں میں طلبا تنظیموں میں پائی جانے والی تشدد پر ان کا کنٹرول کیوں نہیں ہے۔ ماڑ دھاڑ میں حصہ کیوں لیتے ہیں یہ بھی تو ہو سکتا ہے بغیر لڑے کے خدمات سر انجام دیں ۔ مگر اکثر ہر سال طالب علموں میں جب بھی جنگ وجدل ہوتی ہے ان کی جماعت اس میں شامل ضرور ہوتی ہے ۔ اس تنظیم میں برداشت کا مادہ پیدا کر کے اس جنگ کو روکا جا سکتا ہے ۔ جماعت میںورکروں کی کمی نہیں ہے جو پڑھ لکھ کر ایک اچھا شہری بنے کے خواب سجائے تعلیمی اداروں میں پڑھنے آتے ہیں ۔ کیا لڑے بغیر اپنی جنگ یہ جیت نہیں سکتے اس پر توجہ دیں ۔ مجھے قاضی حسین احمد کے ساتھ مل بیٹھنے کا اتفاق رہا آپ سننے کی طاقت رکھتے تھے ۔ غصے پر کنٹرول تھا ۔ غلطیوں پر یقین رکھتے تھے۔سچے کھرے انسان تھے۔اسلام کی بتائی گئی باتوں پر عمل کرتے ۔اسلام پر عمل کرنے میںاس پر کسی پیسے کی نہیں ضرورت نہیں ہوتی بلکہ سوچ اور عمل کی ضرورت چاہیے ہوتی ہے ۔کاش اس جماعت میں تشدد کا عنصر ختم ہو جائے۔تو یہ جماعت سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن سکتی ہے۔ اس جماعت کو اس وقت کالجوں یونیورسٹیوں ،اور بار کونسلوں بار ایسوسی ایشن میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ انہیں چاہیے کہ نوجوانوں کی تربیت پر زور دیا کریں ۔ لڑائی جھگڑوں سے انہیں دور رکھیں۔ کبھی پنجاب یونیورسٹی میں اور کبھی اسلامک یونیورسٹی میں طلبا کے درمیان جنگیں دیکھنے میں آتی ہیں ۔ یہ سلسلہ فوری بند کیا جائے۔ اس سے پیغام اچھا نہیں جاتا۔ بار کونسلوں اور بار ایسوسیشن میں بھی میرٹ پر حصہ لیا کریں ۔نئے وکلا کو غلط کاموں سے دو رکھیں ۔ ہر صورت میں الیکشن کو جیتنے کا سلسلہ بند کریں ۔ کریکٹر اور وضع داری پر زور دیں غلط طریقوں سے الیکشن جیتنے سے اجتناب کریں ۔ چھوٹے بڑے کا احترام سکھایا جائے۔ ملکی لیول پر ایشو پر دھرنے دیا کریں ۔سندھ کے کالے بلدیاتی قانون پر تو دھرنا دیا جا رہا ہے مگر منی بجٹ سے مہنگائی کے بم گرانے سے لوگوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہیں وہاں خاموشی ہے ْ دھرنے نہیں دے رہے۔ ذرا اس طرف بھی توجہ دیں ۔یہ جماعت اچھے کام کر رہی ہے مگر مزید اچھے کام کرنے کی گنجائش موجودہے۔ ایک پرانا قصہ ہے فاختہ اور گدھ ایک ساتھ درخت پر بیٹھے تھے۔ایسے میں ایک شکاری دکھائی دیا۔ فاختہ نے گدھ سے کہا آئو اڑ جائیں ۔گدھ نے کہا میں تو حرام ہوں مجھے کیوں مارے گا۔اتنے میں شکاری نے گدھ کو اپنا نشانہ بنایا ۔گدھ زخمی ہو کر گر گیا فاختہ گدھ کے پاس آئی کہ میں نہ کہتی تھی کہ اڑ جائو ۔ یہاں حرام حلال نہیں دیکھا جاتا، موٹا مال دیکھا جاتا ہے پیارے…!