’آواز ِمسعود‘ کی تقریب ِرونمائی

کچھ لوگ کتابیں لکھ کر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں کچھ لوگ کتابیں لکھ کر رازوں کے پر دے فا ش کرتے ہیں کچھ لوگ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لئے کتابیں لکھتے ہیں کچھ لوگ اپنے اوپر لگے الزامات اور داغ دھونے اور کلیئرنس کے لیے کتابیں لکھتے ہیں لیکن میرے دوست مسعود اسلم للہ نے سو فیصد سچ لکھ کر اپنی زندگی میں ہی اپنا حساب پیش کر دیا ہے ان کی آپ بیتی ایک ریفرنس بک ہے جس میں ان کے ادوار کے اہم واقعات سو فیصد سچ کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں انھوں نے بعض اہم شخصیات کی درپردہ حقیقتیں بھی لوگوں کے سامنے رکھ دی ہیں انھوں نے اپنی زندگی کے تجربات، ٹریولنگ،معلومات بھی شیئر کی ہیں اس حوالے سے آواز مسعود للہ ایک منفرد کتاب ہے ۔ مسعود اسلم 20 سال قبل کینیڈا کے خوبصورت علاقے وینکوور میں جا بسا کیونکہ مسعود اسلم فطرت کے بہت قریب ہے مجھے لگتا ہے کہ اس نے وینکوور کا انتخاب بھی اسی لیے کیا ہو گا چونکہ وہ ایک حقیقت پسند سچا انسان ہے اسی لیے وہ وہاں ایڈجسٹ ہو گیا لیکن اس کی روح پاکستان میں ہی رہتی ہے کیونکہ جس کا سب کچھ اس کے دوست ہوں اس کا دل کہاں لگتا ہے مسعود اسلم کینسر کا مریض ہے ڈاکٹروں کی ایڈوائس کے باوجود میرے کہنے پر پاکستان آ گیا حالانکہ اس کے دوست کمشنر گوجرانولہ ذوالفقار گھمن نے اسے کہا تھاکہ ہم آپ کی کتاب کی تقریب رونمائی ہوٹل میں کریں گے دوستوں کو بلائیں گے اور آپ کا سکائیپ پر خطاب کروالیں گے میں نے کہا دلہا کے بغیر بارات نہیں سجتی بس اس فقرے نے ایسی کاٹ لگائی کہ مسعود صاحب نے پاکستان آنے کی ٹھان لی لاہور میں ہونے والی کتاب کی تقریب رونمائی کیا تھی یاروں کا اکٹھ تھا میں مسعود اسلم کو یاروں کا یار کا خطاب تو پہلے ہی دے چکا ہوں لیکن اب میں کہتا ہوں کہ اگر دوستی کا کوئی مذہب ہوتا تو مسعود اس کا رول ماڈل ہوتا اس کی اپنے پرانے ملازم نسیم بابو سے بھی دوستی ہے وہ جب بھی پاکستان آتے ہیں وہ اتنے دن ان کے ساتھ ہی رہتا ہے تقریب میں بھی سابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ندیم حسن آصف،سابق آئی جی بلوچستان راؤ امین ہاشم،پروفیسر ڈاکٹر غیاث النبی طیب،سابق وفاقی سیکرٹری میجر(ر) شاہنواز بدر موجود تھے جنرل ریٹائرڈ سعید پنڈی سے خصوصی طور پر تقریب کے لیے لاہور آئے سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق کو انھوں نے اپنے محسن سردار عبد القیوم کا صاحبزادہ ہونے سے زیادہ اپنے دوست کے طور پر بلایا تھا سابق وزیراعظم پیپلز پارٹی کے رہنما وسینٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی سے ان کو لگاو ہے ویسے اگر پاکستان کے سیاستدانوں کا مقابلہ حسن کروایا جائے تو سید یوسف رضا گیلانی بلا مقابلہ خوبصورت سیاستدان منتخب ہو جائیں وہ اپنے نام کی طرح خوبصورت ہیں اور مسعود اسلم ان سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے دوست اور رشتہ دار دور دراز سے آے تھے جنکے چہروں پر اتنی خوشی اور بشاشت تھی جیسے وہ انکی شادی پر آئے ہوں۔مسعودنے اپنی تقریر کا آغاز اپنے مرْحوم والدین کوپر شکوہ الفاظ میں خراج ِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا اور یہ بھی کہا مجْھے یقین ہے اْنکی روح میرے ساتھ ہے یہ تقریب دْنیا بھر میں انکے دوستوں نے لائیو دیکھی۔رات اور دن کا فرق ہونے کی وجہ سے وینکوور میں انکی فیملی اور ٹورنٹو میں سابق سیئنر بیورو کریٹ خوشنود اختر لاشاری اور سرود لاشاری تو رات بھر تقریب دیکھنے کے لئیے جاگتے رہے مسعود اسلم نے اپنی ساری بہنوں کو مدعو کر رکھا تھا قابلِ تعریف اقدام مسعود اسلم نے نمک حلالی کرتے ہوئے تقریب کے آغاز میں پاکستان ترانے کے ساتھ کینیڈا کا ترانہ بھی سنوایا اور تمام لوگ پاکستانی ترانے کے احترام کی طرح کینڈین ترانے کے احترام میں بھی کھڑے رہے مجھے خوشی ہوئی کہ کوئی تو ہے جس میں یہ وصف ہے کہ وہ اپنے محسن کی قدر کرتا ہے مصنف نے اپنی کتاب کے آغاز میں لکھا ہے کہ ابراہم لنکن نے کہا تھا،زندگی کے حوالے سے اپنے تجربات مشاہدات اور خیالات شیئر کرتے رہا کریں ہو سکتا ہے کہ آپ کا آئیڈیا کسی انسان کی روح میں جان ڈال دے،اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ کتاب کے پہلے صفحے پر ایک خاموش چہرہ صاحب نظر انسان سے مخاطب ہو گا جو اپنے ہم عمروں کو عمر رفتہ کی شیریں یادیں یاد دلائیگا اس کتاب کے چند ابواب نوجوانوں کے لیے مستقبل کے حسین خوابوں کو جلا بخشیں گے اور میری داستان حیات قارئین کوزمان و مکان کی وسعتیں سمیٹ کر گزرے ہوئے واقعات کی روشنی میں روز آئندہ کو دیکھنے میں مدد دے گی نصف صدی سے زیادہ کے عرصہ میں بچپن، جوانی ،سروس، ہجرت اور اللہ کے گھر سے لے کر افریقی جنگلوں تک پھر یورپ سے امریکہ، کینیڈا تک ملک ملک قریہ بہ قریہ شہر بہ شہر ہونے والے تجربات وا قعات اور سانحات سے جو بھی فہم و شعور حاصل ہوا اسے شیئر کرنے کی کوشش کی ہے جو یقینا آپ کی دلچسپی کا باعث ہوگا مصنف نے اپنی زندگی کے سارے حاصل تجربات کی عرق ریزی کرکے انھیں الفاظ میں پرو کر کتابی شکل دی ہے جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے اس کا مزہ کتاب پڑھ کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے کتاب کی تیاری اور پرنٹنگ ہمارے دوست جمہوری پبلیکشنز والے فرخ سہیل گوئندی کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔