ہم ،طالبان اور افغانستان

چلو یہ کتاب نہیں خطاب کا زمانہ ہی سہی لیکن کیا کسی کتاب کے بغیر کوئی موثر خطاب ممکن ہے ؟ دلیل ، منطق ، انداز ،جواز، مطالعہ اور مشاہدہ سے ہی ممکن ہے ۔ اللہ بھلا کرے یاسر پیر زادہ کا ، ان کے کالم سے حبیب اکرم کی کتاب ’’ہم ،طالبان اور افغانستان‘‘کی خبر ہوئی ۔ حبیب اکرم کے بارے کالم نگار کی پسندیدہ رائے ان کی جسٹس عائشہ ملک کی عدالت میں دائر کی گئی ایک پبلک انٹرسٹ کی رٹ پٹیشن سے قائم ہوئی تھی۔ حبیب اکرم کے عدالتی رجوع کے باعث 2018ء کے الیکشن میں امیدواروں کو اپنے انتخابی فارم میں اپنے وسائل جائیداد سمیت بہت کچھ بتانا پڑاجو وہ بھی چھپانا چاہتے تھے ۔ سیاسی کارکنوں سمیت سبھی اس اہم قومی مسئلے پرچپ سادھے بیٹھے تھے ۔ادھر اپنے اپنے سیاسی قائدین کے بارے عقیدت اور احترام میں ہمارے سیاسی کارکن پیر صاحب پگاڑا شریف کے حروں سے چار ہاتھ آگے ہیں۔ 350صفحات پر مشتمل ان کی شاندار کتاب کا افسوسناک پہلو یہی ہے کہ اس کی تعداد اشاعت محض 600ہے ۔ بلبل کا نغمہ اگر گلاب تک ہی نہ پہنچے تو پھر صفحے کالے کیوں کئے جائیں؟ اس سوال کا جواب یوں ہے کہ چند سر پھرے صرف اپنے حصے کی شمع جلانے تک دھیان رکھتے ہیں۔ مینوں اپنی توڑ نبھاون دے ۔ پھر اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ جس معاشرے میں مطالعہ کا شوق دم توڑ جائے وہاں برگسان اورنٹشے بھی بھلا کیا کر سکتے ہیں ؟بہر حال انہیں اتنی جامع کتاب لکھنے کی مبارک۔ حبیب اکرم اپنی کتاب کا آغاز یوں کرتے ہیںکہ یہ سوال بڑا اہم ہے کہ ملک ،مذہب اور قوم کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟اس سوال کا ایک جواب بھارت ہے اور دوسرا پاکستان ۔ بھارتی جواب ہمیشہ سے ہی یہی رہا ہے کہ جغرافیہ قوم کی تشکیل کرتا ہے ۔ اسلئے ہندوستان کی تقسیم کی ضرورت نہ تھی ۔ پاکستان کا وجود بذات خود اس سوال کا جواب ہے کہ مذہب کسی قوم کی تشکیل میں اتنا اہم کردار ادا کرتا ہے کہ اس کی بنیاد سے جغرافیہ بھی بدل جاتا ہے ۔ اس سے اگلا سوال خالصتاً پاکستان کیلئے ہے کہ اگر ایک ہی جغرافیے میں ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے دو ملک ہوں تو ان دونوں ملکوں میں کیا تعلق ہوگا؟ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں اور یہی ابہام پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلق میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ یکساں تاریخ ، ایک جغرافیہ اور ایک ہی مذہب ہونے کے باوجود یہ دونوں ملک اپنی جداگانہ حیثیت سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے اور فطری عوامل انہیں اک دوسرے سے الگ بھی ہونے نہیں دیتے ۔ ہمارے غور کرنے کا معاملہ یہ ہے کہ سوویت یونین کی بنائی ہوئی حکومت ہو یا پھر امریکہ کا ترتیب دیا ہوا بندوبست ، دونوں یکساں طور پر پاکستان کے خلاف ہی اقدامات کیوں کرتے رہے ہیں ؟ پاکستان بننے کے بعد دو سپر پاورز نے افغانستان پر حملہ کیا اور یہ دونوں جنگیں پاکستان کی معاونت سے ختم ہوئیں۔ لیکن یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ آخر سپر پاورز کی شروع کی ہوئی جنگیں آخری تجزیے میں افغانستان کے اندر پاکستان مخالف اور پاکستان حامی قوتوں کی باہمی چپقلش کی شکل کیوں اختیار کر گئیں ؟ جبکہ پاکستان کے ستر ہزار سے زائد شہری ، پولیس کے جوان ، محترمہ بینظیر بھٹو سمیت کئی سیاسی رہنما اور فوج کے جنرل تک اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔یہ کتاب افغانستان کے مسئلے کا مکمل مطالعہ ہے ۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ ہماری حکومتیں افغانستان کے بارے نہ تو کچھ جانتی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اس مسئلے کا کوئی سنجیدہ حل موجود ہے ۔مصنف کی رائے میں افغانستان کے بارے میں ہمارے فیصلے ہمیشہ خوف کے تابع رہے ہیں۔ دیگر عوامل کے علاوہ ضیاء الحق کو یہ خوف بھی تھا کہ دنیا ان کے مارشل لاء کو قبول نہیں کریگی ۔اس خوف سے وہ امریکہ کے ساتھ مل کر سوویت یونین کے خلاف لڑنے پر آمادہ ہو گیا۔ جنرل مشرف کا بھی یہی مسئلہ تھا۔ سیاستدان اس معاملے میں کتنے با اختیار ہیں یہ لکھنے ، پڑھنے اورغور کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہم نے 1978ء سے لیکر آج تک افغانستان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ہمارا کل حاصل وصول عالمی بدنامی ، دہشت گردی ، معاشی نقصان اور معاشرے میں مستقل انتہا پسندی کا مرض رہا ہے۔ پھر ہمیں یہ خوف بھی لاحق ہے کہ اگر افغانستان کا مسئلہ حل نہ ہوا تو ایک بار پھر دہشت گردی پاکستان میں در آئیگی۔ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں لگتا ہے کہ اسی خوف کے تابع کر رہے ہیںاور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کے پاس کوئی آپشن ہی موجود نہیں کہ وہ افغانستان کے مسئلے سے الگ تھلگ رہ سکے ۔ کالم نگار اپنے کالم میں کتاب سے ایک واقعہ لکھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ افغانستان مطالعاتی دورے پر گئے ہوئے مصنف سے ایک فوجی وردی میں ملبوس نوجوان پوچھتا ہے: کہاں سے آئے ہو؟ مصنف نے جواب دیا لاہور سے ۔ اب اس کا اگلا سوال تھا کہ لاہور دریائے سندھ سے آگے ہے یا اٹک سے پہلے ؟ مصنف نے اس سوال کاجواب دیتے ہوئے اس سے پوچھا؟ تم آج تک پاکستان گئے بھی ہو ؟ اس فوجی کے نفی میں جواب پر مصنف بولا۔ پھر تم اٹک اور دریائے سندھ کے حوالے سے لاہور کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو ؟ وہ جواب میں کہنے لگا۔ ہم تو سمجھتے ہیں ، اٹک تک کا علاقہ افغانستان ہے ۔ اس نے یہ کہا تو کمرے میں موجود سبھی لو گ اس بات کو سن کر فخریہ انداز میں ہنس پڑے ۔ اب مصنف کی باری تھی ۔ اس نے کہا۔ پاکستان میں تو ہم سمجھتے ہیں کہ دریائے آموتک ہمارا علاقہ ہے ۔ اب وہ تھوڑے سے پریشان ہو گئے ۔ ایک بولا وہ کیسے؟ مصنف ہنستے ہوئے کہنے لگا۔ جیسے اٹک تمہارا ہے ۔ اس پر سبھی کھل کر ہنس پڑے ۔