خبر کی موت
جب سے سوشل میڈیا خبری ذرائع کی صنعت پر براجمان ہوا ہے ، تب سے خبر کی صداقت اور تحقیق کا عنصر کہیں دفن ہو کر رہ گیا ہے۔ جب تک خبری ذرائع پرنٹ میڈیا تک محدود تھے کارکن صحافی کسی خبر کو پرنٹ کرنے سے قبل پوری تحقیق کیا کرتے تھے جس کے بعد قارئین تک پہنچنے والی ہر خبر صداقت پر مبنی اور کسی قسم کے شک و شبہے سے بالاتر ہوتی تھی۔
90ء کی دہائی تک تو اخبارات انگریزی ، اْردو گرائمر کے مْستند سکول اور اْستاد کا کردار بھی ادا کرتے رہے ، بڑی سے بڑی نصابی ڈگری کا حصول بھی غیرنصابی اخبارات پڑھے بغیر ممکن نہ تھا۔ اخباری صنعت میں ہر لکھنے والا خبر کی صداقت کے ساتھ ساتھ الفاظ کے چْناو اور جملوں کی ترتیب کے ادبی رنگ پر کماحقہ عبور رکھتا تھا ؛ اخباری خبریں اور تحریریں ہی قارئین کی علمی وسعت کو لفظوں کے لہجے اور گرائمر کے ذخیرہ سے روشناش کراتی تھیں۔ اخبارات ادب کی وہ یونیورسٹی تھے جہاں سے بڑے بڑے ادیب ، کہانی کار ، افسانہ نگار ، مکالمہ نویس اور مزاح نگار تربیت حاصل کر کے اپنے علم و ہْنر اور فن کی بلندیوں پر پہنچتے تھے ، کیونکہ اخبار میں چھپنے والے ایک ایک لفظ کی اشاعت سے پہلے پوری پوری لْغت چھان لی جاتی تھی پھر کہیں جا کر کسی خبر کا ظہور ہوتا۔ اخبارات میں خبر کی سچائی اور اْس کی نوک پلک سنوراے جانے کے عملی طریقہ کار کو پہلی نقب الیکٹرونک میڈیا کی تیزترین رپورٹنگ اور فوری خبر دینے کی بریکینگ نیوز نے لگائی جس کی دوڑ میں صحافتی اصولوں اور خبری پیمانوں کو کہیں فراموش کر دیا گیا۔ حتی کہ کبھی کبھار کمپیوٹر کی ان پیج فائل میں لکھے گئے اردو ہجوں کی بھی وہ ٹانگ توڑی جاتی ہے کہ خود اْردو کی اپنی روح بھی کلپلا اْٹھتی ہے۔ صحافتی امور میں غیر تربیت یافتہ الیکٹرانک میڈیا کی یہ چیرہ دستیاں ابھی جاری ہی تھیں کہ اوپر سے سوشل میڈیا آن وارد ہوا ، ہر کمپیوٹر اور موبائل رکھنے والے نے صحافتی لبادہ اْوڑھا اور بچی کْچھی ’’ عزت خبر ‘‘ کی رہی سہی دھجیاں بھی اْڑا کے رکھ دیں۔ نہ کوئی صحافت سیکھنے ، سمجھنے والے رہے اور نہ سکھانے والے قائم رہ سکے۔ خبروں کے ایسے ایسے نمونے رونما ہوئے کہ دل خون کے آنسو رونے کی بجائے پینے پر مجبور ہو گیا۔ ابھی گزشتہ رات ہی جدید ملائشیا کے بانی اور اْمت مسلمہ کے عظیم لیڈر سابق وزیر اعظم مہاتیر بن محمد کی وفات کی دلخراش خبر دیکھنے اور پڑھنے کو ملی کیونکہ وہ اِسی جنوری کی سات تاریخ سے 13 جنوری تک کوالالمپور کے قومی امراض قلب کے ہسپتال میں داخل رہے تھے اس لیے فوری طور پر خبر کے جھوٹا ہونے پر کوئی گمان نہ ہو سکا پھر بھی اپنی طبیعت کی تحقیقی تربیت کے زیر اثر کچھ اور کلک کرنے پر ایک ٹی وی چینل کی معروف خاتون اینکر کی نیوز بھی سامنے آ گئی جو مہاتیر محمد کی وفات کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو بھی مہاتیر محمد کے جنازے میں شامل ہونے کا اپنا قیمتی مشورہ دے رہی تھی۔ کیونکہ مہاتیر محمد امت مسلمہ کے عظیم لیڈر ہیں ملائشیا کو انہوں نے سیاسی اور سماجی اندھیروں سے نکال کر ایک جدید معاشی ریاست بنایا ہے 22 سال تک مسلسل وزیراعظم رہے ہیں وزارت عظمیٰ کا آخری حلف انہوں نے 92 سال کی عمر میں اْٹھا کر دنیا کے معمر ترین وزیراعظم بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا 2018ء میں وہ آخری بار وزیراعظم بنے جس کے بعد 2020 ء میں وہ اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے تھے۔ اس سے قبل وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سمیت ہر فورم پر کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کھل کر بات کرتے رہے وہ اہل مغرب کے مسلمانوں سے تعصب کے سامنے ایک طاقتور آواز رہے اس لیے ان کی وفات کی خبر پر دل گرفتگی کے عالم میں ان کی بایو گرافی پڑھنے لگا تو انکشاف ہوا کہ مغربی کسی خبری ذرائع پر ان کی وفات کی نیوز موجود نہ ہے۔ مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ اْن کی بڑی بیٹی مرینہ مہاتیر اْن کی صحت پہلے سے بہتر ہونے کی تصدیق کر رہی ہیں اور میڈیا پر ان کے اہل خانہ بھی مہاتیر بن محمد کی وفات کی وائرل ہوتی خبر کو جھوٹی خبر قرار دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ مہاتیر محمد کے دادا کا تعلق پاکستان کے علاقے کوہاٹ سے تھا وہ 10 جولائی 1925ء کو ملائشیا کے شہر الوسٹار میں پیدا ہوئے والد محمد بن سکندر ایک سکول پرنسپل تھے والدہ ٹیمپا وان ملائشیا کے شاہی خاندان کی دور کی رشتہ دار تھیں ، مہاتیر محمد نے سنگا پور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی 1956ء میں بطور ڈاکٹر پریکٹس کرتے رہے 1970ء میں ملائشیا کی سیاست پر پہلی کتاب لکھی 1973ء میں سینیٹر منتخب ہوئے 1974ء میں وزیر تعلیم اور نائب وزیراعظم رہے 2003ء میں سیاست سے ریٹائر ہو گئے اور ملائشیا کی معاشی ابتری پر دوبارہ سیاست میں آئے نئی سیاسی جماعت بنائی اور پھر وزیراعظم بنے ۔ گو اس وقت مہاتیر بن محمد کی عمر 96 برس ہو چکی ہے اور ہر ذی نفس نے موت سے ہمکنار ہونا ہے لیکن کون اپنے خالق حقیقی سے کس وقت جا ملے گا اس کی اطلاع قبل از وقت کوئی انسان نہیں دے سکتا اس لیے کسی کی موت کی جھوٹی خبر درحقیقت ’’خبر کی موت‘‘ ہے۔