لاہور کے دل انارکلی میں دہشت گردی

گزشتہ ہفتے کے دوران دہشت گردوں نے ایک عرصے کے بعد ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو نشانہ بنایا ۔دوپہر کو لاہور کے دل انارکلی کی پان گلی میں ایک دھماکہ ہوا ،اتفاق کی بات ہے کہ میو ہسپتال بالکل قریب تھااس لیے ابتدائی طور پر شہریوں نے زخمیوں کو رکشے میں ڈال کر ہسپتال پہنچایا ۔پھر گیاراں بائیس کی سروس بھی اپنے فرائض انجام دینے لگی ۔ مری کے سانحے کے بعد سرکاری ادارے ہائی الرٹ پر تھے اس لیے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے لے کر ہسپتال کے ایم ایس، رجسٹرار ،شعبہ ایمرجنسی کے سربراہ سرجن اور پروفیسرز کی بھاری تعداد اپنی ڈیوٹی پر موجود تھی ۔جس کی وجہ سے مریضوں کی فوری طبی امداد میں ذرہ بھر غفلت دیکھنے میں نظر نہیں آئی ۔ایک زخمی کو مردہ حالت میں ہسپتال لایا گیا ،دوسرا زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا ۔میو ہسپتال میں کل اٹھائیس افراد لائے گئے ان میں سے چار کی حالت بڑی نازک تھی اور ان کے فوری آپریشن کے لیے ڈاکٹر چوکس ہوگئے ،تاہم ان میں سے بھی ایک مریض جانبر نہ ہوسکا۔وزیر صحت یاسمین راشد نے بھی ہسپتال کا دورہ کیا اور مریضوں سے گفتگو کرکے علاج معالجے کی تفصیلات فراہم کیں ۔دوسری طرف امن و امان کے قیام کے ضامن ادارے بھی فوری طور پر حرکت میں آئے ۔ڈی آئی جی آپریشن ڈی آئی جی انویسٹی گیشن اور دیگر چھوٹے بڑے پولیس اہلکار جائے حادثہ پر دھماکے کے شواہد اکٹھا کرنے کے لیے مکمل طور پر سرگرم رہے ۔مختلف مقامات سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی گئی اور مشتبہ افراد کی تلاش کا عمل تیز کر دیا گیا ۔
بحث یہ نہیں کہ دھماکہ چھوٹا تھا یا بڑا لیکن قابل غور نقطہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا سلسلہ دوبارہ کیوں چل نکلا اور عام آدمی کی زندگی کو خطرات سے کیوں دو چار کر دیا گیا ۔افواج پاکستان کویہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے بیس برس تک دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور سنگین جنگ لڑی ،ملک میں قیام امن کے دیگر ادارے بھی اس اعزاز میں برابر کے شریک ہیں ۔اس جدوجہد میں اسی ہزار جانوں کا نذرانہ دینا پڑا اور ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے زائد کا معیشت کو نقصان پہنچا مگر پاکستانی عوام نے ہمت نہیں ہاری۔ان کے محافظ جاگ رہے تھے ،قربانیاں دے رہے تھے، ان قربانیوں کے صلے میں عام پاکستانی چین اور سکون سے سونے کے قابل ہوا ہے ۔
اگرچہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کے حق میں نہ تو اس وقت کی حکومت تھی اور نہ کوئی سیاسی اور مذہبی پارٹی ۔ہر ایک کی ضد تھی کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرکے امن کی بھیک مانگی جائے ،ملکی سلامتی کے ذمہ دار ادارے اس ماحول میں سخت بے چین تھے کیونکہ دہشت گردی کا عفریت پھنکار رہا تھا اور پاکستان کی سیاسی پارٹیاں سرکاری ہیلی کاپٹروں پر دہشت گردوں سے مذاکرات کی لاحاصل ایکسر سائز کر رہی تھیں ۔پشاور آرمی سکول میں پھولوں جیسے ڈیڑھ سو بچوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا تو پھر دہشت گردی کا سر کچلنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہا ۔ملک کے تمام طبقات نیشنل ایکشن پلان پر متفق ہوئے اور مسلح افواج نے ضرب عضب آپریشن کا آغازکیا ۔ملک کے قبائلی علاقوں کے باشندوں کو آج تک دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا سپہ سالار بھی زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوا مگر داد دی جائے پاکستانی فوجی افسروں اور جوانوں کو کہ انہوں نے ایک ایک کرکے تمام قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کیا ۔شمالی وزیر ستان کا آپریشن انتہائی مشکل ثابت ہوا اس میں جرنیل بھی شہید ہوئے اور دیگر افسر اور جوان بھی ۔لیکن کیا مجا ل ہے کہ مسلح افواج کے پائے استقلال میں ذرا سی لغزش آئی ہو۔دہشت گردوں کی سرکوبی میں وقت تو لگا ،اس دوران نقصان بھی بے حد اٹھانا پڑا ۔لیکن بالآخر نتیجہ مثبت نکلا اور راوی ہر سو چین لکھنے لگا ۔
پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے عناصر تنہا نہیں تھے کہ ان کا بڑا سر پرست بھارت تھا ۔جس نے پاکستان کی مغربی سرحد پر قونصل خانوں کی آڑ میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپ قائم کیے ۔جلال آباد کے بھارت قونصل خانے میں تو’ ر ا ‘ کا بہت بڑا نیٹ ورک قائم ہے جہاں سے بلوچستان لبریشن آرمی کے باغیوں کو بھاری اسلحہ اور ڈالروں کی تھیلیاں فراہم کی جاتی تھیں ۔ان سب کا مقصد ایک تھا کہ پاکستان میں بد امنی کا سلسلہ جاری رہے اور ملک کی معیشت کے لیے گیم چینجر سی پیک کا پراجیکٹ مکمل نہ ہوسکے ۔دہشت گردی کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ پاکستانی افواج کے ناقابل تسخیر ہونے کاتاثر ختم کیا جائے اور اسے اس قدر کمزور کرکے رکھ دیا جائے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کرنے کے قابل نہ رہے ۔مگر پاکستان کی بہادر افواج نے دشمن کا غرور خاک میں ملا دیا اور ملک کے طول و عرض میں امن قائم ہوگیا ۔ورنہ ایک وقت وہ تھا کہ کبھی جی ایچ کیو پر حملہ ہو رہاہے ۔کبھی کامرا اور واہ کینٹ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔کبھی تربیلہ میں خون کی ندیاں بہائی گئیں ۔کبھی کراچی ایئر پورٹ کو میدان جنگ بنا دیا گیا ۔کبھی داتا دربار پر خون کی ہولی کھیلی گئی ۔مارکیٹوں میں مسجدوں میں اسکولوں میں حتیٰ کہ جنازوں تک میں بم پھٹے اور لاشیں گرتی رہیں لیکن پاکستانی قوم اس قدر عظیم ہے کہ اس نے ابھی تک ہمت نہیں ہاری،زخم پر زخم کھائے اور اچھے دنوں کا انتظار کیا ۔بالآخر یہ اچھے دن آگئے اور اب پچھلے کئی برس سے پاکستان کے طول و عرض میں امن و امان قائم ہوچکا ہے ۔
نئی پیچیدہ صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ افغانستان میں طالبان نے امریکی اور نیٹو افواج کو شکست سے دوچار کیا اور انہیں مار بھگایا۔یہ تاریخ کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے لیکن طالبان ابھی تک مستحکم حکومت نہیں قائم کر پائے ۔ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ان کی مستقبل کے لیے سوچ کا اندازہ بھی نہیں ہوپاتا ۔پاکستان نے بجا طور پر طالبان کی نئی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکیں لیکن افغان طالبان ہچر مچر کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ آپ جانیں اور ٹی ٹی پی جانے ۔افغان طالبان نے یہ بھی کہا کہ آپ لوگ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرکے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرلیں۔ ایسی خبریں بھی سننے میں آئیں کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات شروع ہوگئے ہیں اس پر پاکستانی عوام میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی کہ اسی ہزار پاکستانیوں کے قاتل کو کس طرح معافی دی جا سکتی ہے ۔بہر حال پاکستان میں ایک طبقہ ایسا موجود ہے جو سمجھتا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں اور ہر جنگ کو ختم کرنے کے لیے بالآخر مذاکرات کرنے پڑتے ہیں اس لیے کیوں نہ جنگ کی بجائے مذاکرات سے ہی مسائل کا حل نکال لیا جائے ۔پاکستان نے خلوص کے ساتھ یہ کوشش کردیکھی لیکن ٹی ٹی پی نے بھاری شرائط عائد کردیں ۔جن کی وجہ سے لگتا ہے کہ پاکستان مذاکرات سے نا امید ہوگیا ہے ۔پچھلے دنوں آئی ایس پی آر کے سربراہ نے ایک میڈیا بریفنگ میں اس امر کا اعلان کیا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے اور اگر کوئی سیز فائر کی صورتحال تھی تو وہ اب برقرار نہیں رہی اور پاکستانی افواج ایک بار پھر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں مصروف ہیں ۔
قومی سلامتی کی پالیسی بنانا اور اس پر عمل کرنا حکومت اور ریاستی اداروں کا کام ہے مگر لاہور میں دہشت گردی کی سنگین واردات سے یہ پیغام ٹی ٹی پی نے بھی دے دیا ہے کہ ان کی طرف سے بھی سیز فائر ختم ہوچکی ہے۔اب ہم ایک بار پھر دہشت گردوں کے خلاف حالت جنگ میں ہیں اور ہمیں اسی صبر و ہمت کا مظاہرہ کرنا ہے جس پر ہم نے بیس سال تک عمل کیا ۔دہشت گردوں کی طاقت نا قابل تسخیر نہیں اور پاکستانی عوام اور ریاستی ادارے پر عزم ہیں کہ وہ دہشت گردوں کو کچل کر رکھ دیں گے ۔ہم نے لاہور کی نئی انارکلی کی دہشت گردی کا پیغام اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے جان لیا ہے اور ہم اللہ کے فضل سے اس سے نبرد آزما ہونے کی مکمل طاقت اور صلاحیت رکھتے ہیں ۔