استحکام پاکستان

حصول پاکستان کا واحد مقصد یہ بتایاگیا تھاکہ ہم بحیثیت ایک مسلمان قوم کے اپنی زندگی کے نظام کو ان اُصولوںپر استوار کریں گے جو مذہب اسلام نے پیش کئے ہیں اور اس مقصد اور نظریہ کی تائید ہماری دستور ساز اسمبلی میںپاس ہونے والی قرارداد مقاصد نے بھی کر دی۔ ظاہر ہے کہ جب حصول پاکستا ن کامقصد قیام پاکستان تھا تو استحکام پاکستان کا ذریعہ بھی اسلام ہی ہونا چاہئے مگر یہ عجیب بات ہے کہ اس وقت کم و بیش اسلامی مزاج کا دستور پاس کر چکنے کے بعد بھی بدقسمتی سے ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کی سرگرمیوں کا رُخ مکہ و مدینہ کی بجائے نیویارک اور لندن کی طرف ہے، بلاشبہ کسی ملک کا استحکام اس ملک میں بسنے والی قوم کے اساسی نظریات‘ فکری رحجانات‘ قوت عمل اور جذبہ یقین جو ایمان پر منحصر ہوتا ہے اور اسکے ساتھ اس ملک کے مادی ذرائع اور وسائل پر بھی موقوف ہوتا ہے مگر اخلاقی قوت کو مادی قوت پر ایک تاریخی فوقیت حاصل ہے اگر کسی قوم کے افراد میں قوت ارادی مفقود ہے اور سیرت و کردار کی پختگی کا فقدان ہے اور ان کے سینے نور ایمان و یقین سے منور نہیں تو ایٹم بموں جیسے ہلاکت آفرین مادی وسائل بھی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اسکے برعکس اگر ان کے قلوب میں اخلاقی قوت و جرأت کا خزانہ موجود ہے تو پھر انکے تنکوں میں طوفانوں کو پناہ مل سکتی ہے اور ان کے ذرات فولادی چٹانوںکا منہ پھیر سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں قابل ذکر امر یہ ہے کہ ہر نظریہ حیات اپنے لئے مخلص اور جانثار کارکن طلب کرتا ہے، یوں سمجھیے کہ اشتراکیت اگر کارل مارکس‘ لینن یا سٹالن کی طالب ہے۔ لادینی جمہوریت اگرآئزن ہاور اور چرچل کی محتا ج ہے اور نازیت اگر ہٹلر اور فسطائیت، اگر کسی مسولینی ایسے فرعون مزاج ڈکٹیٹر کی مرہون منت ہے تو اس سے کہیں بڑھ کر دین اسلام اپنے استحکام کیلئے صدیق اکبرؓ‘ فاروق اعظمؓ‘ عثمان غنیؓ اور علی حیدر کرارؓ جیسے فدیان رسالت کا طلبگار ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نخل اسلامی کی آبیاری آئمہ کفر و ضلالت نے کی ہو یہ کام جب بھی ہوا غازیان بدروحنین اور شہیدان کربلا کے ہاتھوں ہوا۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ ضابطہ حیات انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہے۔ اگست 1944ء میں بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے مہاتما گاندھی کے نام جو تاریخی خط لکھا تھا وہ یوں تھا کہ قرآن مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے۔ اس میں مذہبی و مجلسی دیوانی و فوجداری ‘ عسکری‘ تقریری اور معاشی و معاشرتی غرضیکہ زندگی کے سب شعبوں کے احکامت موجود ہیں ۔ مذہبی رسومات سے لیکر روزمرہ کے امور حیات تک‘ روح کی نجات سے لیکر جسم کی صحت تک ‘جماعت کے حقوق سے لیکر فرد کے حقوق و فرائض تک‘ دنیوی زندگی میں جزا و سزا تک ہر فعل و قول اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے لہٰذا جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور بعد حیات کے ہر معیار اور مقدار کے مطابق کہتا ہوں مگر مقام افسوس ہے کہ ہم نے آج جو مؤقف اختیار کر رکھا ہے اس کا استحکام پاکستان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور ہماری قومی زندگی کی گاڑی کو جس راستہ پر چلایا جا رہا ہے اسکا کسی طرح بھی اسلام سے تعلق نہیں ہے۔
یاد رکھیے کہ خالی دعوؤں کی بنیاد پر کوئی نظام تمدن استوار نہیں ہو سکتا۔وزیراعظم عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کااعلان کیا تھا جس سے محب وطن پاکستانیوں نے سکون کا سانس لیا تھا لیکن گزشتہ دو سال سے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اقتدار کیلئے جنگ عروج پر ہے۔ فریقین نے ایک دوسرے پر کرپشن اور دوسرے ناگفتہ بہ الزامات کی بھرمار کر رکھی ہے جس سے ہوشربا گرانی اور کورونا کے خوف نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے جب تک یہاں عوام میں تعلیمی فقدان ہے عوام کی حالت بدترین اور سیاستدانوں کے وارے نیارے رہیں گے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان پر سیاستدانوں کا عملی طور پر قبضہ ہے اور عوام کا نام لیکر اپنے مسائل حل کرنے کیلئے رواں دواں ہیں جس طرح سیاستدانوں کی عدم دلچسپی کے باوجود پاکستان ایک ایٹمی قوت بن گیا ہے۔ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں ہیں جب پاکستان کو نااہل ‘ خود غرض‘ کرپٹ اور ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں بننے والے کھلونوں سے نجات مل جائیگی اور پاکستان میں عوام کی حکمرانی ہو گی اور ملک و ملت خوشحال ہوں گے اور افواج پاکستان کی طرح ہمارے ملک کے تمام ادارے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر کام کریں گے اور وہ استحکام پاکستان کے خواب کے پورا ہونے کا دن ہو گ ۔ اس موقع پر میں اپنے عوام سے کہوں گا کہ یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم کے مشکبار جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے فرائض دیانتداری سے سرانجام دیں کیونکہ پاکستان ہمارا اپنا پیارا گھر ہے ہماری شب و روز کی اپنے فرائض کی دیانتداری سے سرانجام دینے کی کاوشیں ضرور رنگ لائیں گی کیونکہ پاکستان مملکت خدادا ہے جس نے مستقبل میں دنیا بھر میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہے۔بقول شاعر
آؤ اگر ہمارے نصیبوں میں نوبہار نہیں
چمن ہر سو خزاں ہی کو سازگار کریں