تعلیم کا عالمی دن
آج کل واٹس ایپ کی پرائیویٹ پالیسی زیر بحث ہے اور معززین اپنی عزت بچانے کے در پے ہیں۔یہ پرائیویٹ معلومات کس نوعیت کی ہوں گی ا ن کا استعمال کیا ہوگا؟اس کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں،کس طرح کے فوائد ونقصانات یا اثرات مرتب ہونے ہیں، اس کے بارے میں بہت کچھ کہا سنا جا رہاہے۔ طویل بحث ہے بہر کیف اس سے نئی ایپ کو پھلنے پھولنے کا موقع مل رہا ہے۔ لیکن اتنا سمجھ لینا ضروری ہے جو گوگل میپ آپ کو آپ کے گھر کا راستہ دکھا رہا ہے وہ اور بھی آپ کے متعلق بہت کچھ جانتا ہے۔یہ حقیقت تسلیم کی جاچکی ہے کہ فی زمانہ سائنس و ٹیکنالوجی کے عروج کا دور ہے اور چشم فلک نے ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی ہے۔ لیکن اس تناظر میں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم بحثیت قوم کہاں کھڑے ہیں۔ مغرب کی چکاچوند ترقی نے ہمیں خود فریبی سے نکالا ہے یا ابھی تک ہم اسی سحرمیں گم ہیں کہ ان سب ایجادات کے بانی ہمارے آباؤاجداد تھے۔ ہمارے آباء نے سائنس کے جو بنیادی نظریات پیش کیے وہ آج بھی مسلم ہیں۔ مغرب کی ساری جدتیں اور ترقی ہماری مرہون منّت ہے۔ مسلمان سائنسدانوں نے کئی سو سال دنیا میں بلاشرکت غیرے حکومت کی ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں ہمارے اسلاف نے کارہائے نمایاں سر انجام نہ دئیے ہو ں۔
رہا نہ حلقہ صو فی میں سوز مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
خراب کوشک سلطان و خانقاہ فقیر
فغاں کہ تخت و مصلیٰ کمال رزاقی
اس میں کچھ شک نہیں کہ جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے بانی ہمارے آباء ہی تھے
ابن الہیثم جیسی نابغہ روز گارشخصیت نے خلیفہ وقت کے عذاب سے بچنے کیلئے پاگل پن کا ڈرامہ کر لیا تھا۔ جب تک خلیفہ حیات رہے آپ پس زنداں رہے، زیادہ دور نہ بھی جائیں تو ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ جو ہوا وہ کوئی پرانی بات نہیں ہے۔ صد افسوس کہ جدید دور کے تعلیمی تقاضے تو درکنارہم ابھی تک یہ جان نہیں پائے کہ پڑھنا کیا ہے اور پڑھانا کیسے ہے۔ طویل عرصے سے ہم لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کو کوس رہے ہیں لیکن یہ فرصت نہیں ہوئی کہ اسے بدل سکیں۔ دنیا بھر میں نت نئے تجربات ہو رہے ہیں جبکہ ابھی تک ہم سلیبس اور نصاب بدلنے کے تجربات کررہے ہیں۔ تقسیم کے وقت پاکستان میں صرف دو یونیورسٹیاں تھیں۔ اب ماشاء اللہ پاکستان میں مختلف شعبہ جات کی یونیورسٹیوں، لیبارٹریوں،لائبریریوں، ریسرچ سنٹرز اور ان درسگاہوں سے ڈاکٹریٹ کرنے والے طلبہ، انجینئرز، زرعی ماہرین اور آٹی ایکسپرٹس کی تعداد شمار کرنے لگیں تو شاید ہفتے لگیںلیکن اگران ماہرین کے کارناموں سے کوئی نئی ایجاد کا سراغ ڈھونڈنے لگیں تو جواب نفی میں ملتا ہے۔ زرعی ملک میں زراعت کے ماہرین کی کاوشوں کا اندازہ کسان کی حالت زاراور بیجوں کی درآمد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اقوامِ متحدہ کے بین الاقوامی چارٹر برائے انسانی حقوق کے سیکشن 26 کے تحت تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے۔ بین الاقوامی چارٹر کے مطابق عوام کو مفت اور لازمی بنیادی تعلیم فراہم کرنا ریاست کا فرض قرار دیا گیا ہے۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یومِ تعلیم کو عالمی دن کے طور پر منانے کی قرارداد 3 دسمبر 2018ء کو منظور کی۔ یہ دن منانے کا مقصد امن و ترقی کیلئے تعلیمی اہمیت کو فروغ دینا تھا۔ یوں24 جنوری 2019ء کو پہلی بار پاکستان سمیت دنیا بھر میں تعلیم کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔ایک سال گزرنے کے بعد دنیا بھر کی طرح ہم دوبارہ تعلیم کا سال منانے جارہے ہیں۔اس دن ہم نے قدیم تاریخ نہ سہی صرف ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے کہ ہم نے تعلیم جیسے بنیادی شعبے میں جدت پیداکرنے اور دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کیلئے کیا اقدامات کیے ہیں۔ غیر جانبدارانہ جائزہ لینے کے بعد ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس سال بھی ہمارے پاس کارکردگی دکھانے کیلئے کچھ نہیں تو ہمیں بلاتاخیر اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ دن بھی دیگر ایام کی طرح صرف دفتری کارروائی تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔ ہم واٹس ایپ پرائیویسی کو لے کر پریشان ہیں،کبھی یوٹیوب سے گستاخانہ مواد ہٹانے کی دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں تو کبھی ٹک ٹاک اور پب جی جیسی گیمز پہ پابندی کے حق میں نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ ہم ناروے کے خلاف سراپا احتجاج ہوتے ہیں تو کبھی فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہم اپنے زیر استعمال اشیاء کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہمارے پاس سستی سے سستی اور مہنگی سے مہنگی پروڈکٹ سبھی درآمد شدہ ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی زرعی ملک میں بھارت اور افغانستان کے ساتھ تجارت بند ہونے کی صورت میں سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں جو گرانی رہی وہ اور تکلیف دہ امر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہیں کہ ہم کیا کررہے ہیں اور کس سمت جا رہے ہیں۔پاکستان میں تعلیم کا شعبہ سنگین مسائل سے دوچار ہے جس کے لیے ہنگامی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے قیامِ پاکستان سے آج تک کسی بھی حکومت نے ملک میں تعلیمی اصلاحات کو مکمل طور پر نافذ کرنے کیلئے بجٹ نافذ نہیں کیا۔جس کے سبب اساتذہ قلیل تنخواہ میں بنا کسی مناسب تربیت کے پڑھانے پر اور طالبعلم بغیر سہولیات اور جدید ٹیکنالوجی کے پڑھنے پر مجبور ہیں۔ وقت گزرا ہے ختم نہیں ہوا ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا، اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ہمیں تعلیم کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئے اقدامات کرنا ہوں گے۔
؎ یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں