ریڈیوپاکستان کی اہمیت … نہ جانیں سیاست دان نہ اہل اقتدار
پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن ( ریڈیو پاکستان ) کی اہمیت نہ تو ہمارے آج کے دور کے سیاست دان سمجھتے ہیں اور نہ ہمارے حکمران اس ادارے کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جس کی اپنی ریڈیو براڈ کاسٹنگ سروس نہ ہو ۔ ہر ملک کی حکومت اپنی پالیسیوں اور ان کے فوائد ریڈیو براڈ کاسٹنگ سروس کے ذریعے اپنے ملک کے کونے کونے میں پہنچاتی ہے ۔ اس کے علاوہ ہر ملک خصوصاََ بڑے ممالک اپنی ریڈیو براڈکاسٹنگ سروس کے ذریعے اپنے مفادات کو مختلف طرح کے معنی پہنا کر مخالف ملک کے عوام کو متاثر کر تے ہیں ۔ کیونکہ یہ سروس دیگر ذرائع ابلاغ کے مقابلے میں سستی بھی ہے اور آسان بھی ۔ اور ہر کسی کی پہنچ میں ہے ۔ مثلاََ اخبار ہر جگہ پہنچ نہیں سکتا اور پھر قیمت کی ادائیگی بھی مسئلہ ہوتی ہے۔ ٹی وی بھی اپنی نشریات ہر جگہ نہیں پہنچا سکتا ۔ جبکہ ریڈیو براڈ کاسٹنگ سروس عوام کی رہنمائی اور فائدہ مند پروگرام پیش کیے جا سکتے ہیں۔ ایسے پروگرام ٹی وی کے ذریعے ممکن نہیں ہیں۔دنیا میں ہر ملک اپنے مفادات ریڈیو براڈ کاسٹنگ کے ذریعے نشر کرنے کے لیئے میڈیم ویو اور شاٹ ویو کے بڑی طاقت کے ٹرانسمیٹر رکھتے ہیں۔ مثلاََ بی بی سی ، وائس آف امریکہ ، ریڈیو چائنہ ، ریڈیو جاپان ۔ جرمنی کی براڈ کاسٹنگ سروس ۔ ڈائچے ویلے اور آل انڈیا ریڈیو وغیرہ ۔ یہ مصروف ترین ریڈیو براڈ کاسٹنگ سروس دن رات اپنے ملک کے مفادات اور دشمن ملک کے عوام کو چکنی چپڑی باتوں سے ورغلاتے رہتے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں یا حکمرانوں کو شائد علم نہ ہو کہ بھارت ہر لحاظ سے اور ہر طرح سے پاکستان کا دشمن ہے ۔ تو اس کے کئی ریڈیو سیٹشنوں سے بلو چستان کے عوام کو علیحدگی کے لیے اکسانے کے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں ۔ انڈیا کے ان سٹیشنو ں سے جو زہریلہ ملک دشمن پروپیگنڈااہل بلوچستان کو ورغلانے کے لیے کیا جا رہا ہے ا س سے تعلیم سے نابلد بلوچی عوام میں سے کچھ نوجوان بھارتی پروپیگنڈے کا اثر قبول کر رہے ہیں۔ بھارت صرف بلوچستان کے
شہریوں کو پاکستان کے خلاف اکسانے کے لیے پروپیگنڈا نہیں کر رہا بلکہ گلگت بلوچستان کے عوام کو بھی ملک سے بد ظن کر نے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رہا ہے۔ دوسری طرف کابل ریڈیو سٹیشن بھی بھارت سے بڑھ کر ہمارے قبائلی عوام کو پاکستان کے خلاف اکسانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک کے اند ربھی ملک دشمن ہر طرح کا ملک دشمن پروپیگنڈا کر رہے ہیں ۔ مثلاََ ملک کے قیام کے مخالف محمود اچکزئی کے والد اور خود محمود اچکزئی ، مولوی کفایت اللہ اور فضل الرحمن جن کے والد نے پاکستان میں رہتے ہوئے بھی یہ اعلان کیا تھا کہ شکر ہے کہ ہم پاکستان کے قیام کے گناہ میں ہم شامل نہیں تھے ۔ کیا حکومت ان کے زبان بندی کرنے سے ڈر رہی ہے۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن جسے 20 دسمبر1972 سے پہلے ریڈیو پاکستان کے نام جانا جاتا تھا۔ ذولفقار علی بھٹو جیسے جہاندیدہ شخصیت نے پاکستان کے خلاف دشمن کے پروپیگنڈے کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ادارے کو ایک خود مختار ادارے میں تبدیل کیا تاکہ یہ ادارہ وقت کا ساتھ دے ۔ اس ادارے کی اہمیت ہمارے موجودہ دور کے حکمرانوں کو اس لیے نہیں ہے کہ نہ اس سے کوئی غرض ہے کہ بھارت کئی کئی زبانوں میں پاکستان کے خلاف پاکستان کے خلاف کیا پرو پیگنڈا کر رہا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کی یہ حالت ہے کہ سر شام مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر جس طرح ایک دوسرے کی کرپشن ۔ جھوٹ ۔ فراڈ ۔ دغابازی اور مکاری میں ایک دوسرے کو ننگا کر تے ہیں ان کی حب الوطنی ان کے بیانات سے عیاں ہوتی ہے۔ ٭…ریڈیو پاکستان کی اہمیت اور ذمہ داریاں ریڈیو پاکستان اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کا اسی طرح کا محافظ ہے جس طرح سرحد پر کھڑ ا کوئی فوجی جوان کھڑا ہو۔ ریڈیو پاکستان کے ملک بھر میںچھوٹے بڑے سٹیشن نہ صرف دشمنوں کے پروپیگنڈے کو مونیٹر کرتے ہیں بلکہ ایک طرف تو اپنے عوام کو حقیقی صورت حال سے آگا ہ کرتے ہیں تو دوسرے طرف بھارتی پروپیگنڈے کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ اور باقی عوام کو بھارتی حکمرانوں کے کارستانیوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ انسان ہی کرتے ہیں ۔ اور یہ اسی ادارے کے محنتی کارکن کرتے آرہے ہیں ۔ اس محنتی کارکنوں میں خواتین ومرد دونوں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ملک کا وہ کون سا طبقہ ہے جس کے لیے ریڈیو پاکستان سے پروگرام پیش نہیں کیے جاتے ۔ دنیا میں کوئی براڈ کاسٹنگ سروس اپنے اخراجات میں خود کفیل نہیں ہے ۔ بلکہ قومی مفادات کے تحت حکومتیں ان کے اخراجات ادا کرتی ہیں ۔ اس قومی ادارے کو پیپلز پارٹی کے دور میں اس کی ضرورت کے اخراجات تو ادا ہوتے تھے باقی کسی حکمران نے اس ادارے کی نہ اہمیت کو سمجھا ہے نہ پاکستان کی ضرورت کو سمجھا ہے ۔ ٭…عارضی ملازمین کو بحال کرنے کی ہدایت ہماری ایک حکومتی کمیٹی کے سربراہوں نے ریڈیو پاکستان کو ہدایت کی ہے کہ وہ نکالے گئے عارضی ملازمین کو بحال کریں ۔ تو کیا فنڈز کے بغیر یہ عارضی ملازمین بغیر تنخواہ کے کام کریں گے۔ جبکہ اس کمیٹی نے خود کہا ہے کہ ریڈیو پاکستان کو مزید ایک ارب فنڈ کی ضرورت ہے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ اپنے ذرائع سے پورا کریں ۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس کے اپنے ذرائع کون سے ہیں ۔ اگر کچھ ٹرانسمیٹر کو ختم کر کے وہ زمین فروخت کر دی جائے تو کتنے سال گزارا ہو گا۔ یہی ایک سال ۔ پھر کیا ہوگا۔ یہ اس کمیٹی نے نہیں بتا یا ۔ اس لیے کہ کمیٹی کے ارکان نہ پاکستان کی اہمیت جانتے ہیں نہ پاکستان کے اداروں کی اہمیت جانتے ہیں ۔ نہ پاکستان سے انہیں محبت ہے ۔ جو کچھ ان کی محبت نیب کے ذریعے یا دیگر ذرائع سے پاکستان تک پہنچتی ہے اس سے عوام کے دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ یارب العزت ان لوٹیروں سے اس ملک کو محفوظ رکھنا۔ ٭ریڈیو کے اثاثوں پر نظر… حکومتی کمیٹی کے ایک فرد فرماتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان کو اسلام آباد میں اتنی بڑی بلڈنگ کی کیا ضرورت ہے ؟ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں علم نہیں کہ ریڈیو کے پروگراموں کو ہوا میں بکھیرنے میں کن کن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ یہ کام کسی خیمے میں بیٹھ کر نہیں ہو سکتا ۔ ریڈیو کے پروگراموں کے لیے اس طرح کی بلڈنگوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایسی باتیں کہنے والے دیگر ممالک میں جاکر ان کی ریڈیو عمارات کو دیکھ لیں تاکہ انہیں معلوم کے ریڈیو پاکستان کے کام خیموں میں بیٹھ کر نہیں ہو سکتے ۔