اتوار ‘ 10؍ جمادی الثانی 1442ھ‘ 24؍ جنوری 2021ء

مفتی کو گھر میں بند کردیا گیا ، علاج ہورہا ہے: اہلخانہ
کیا باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں‘ مفتی عبدالقوی ان کی شوخی طبع اور رنگین مزاجی نے انہیں کس حال میں پہنچا دیا۔ حریم شاہ نامی ٹک ٹاک بلاگر نے نجانے کون سے جنموں کا بدلہ لیا ہے ان سے پہلے قندیل نامی اداکارہ اور ماڈل تھی ۔ وہ اچانک قتل ہوئی تو لوگوں نے سمجھا کہ اب مفتی صاحب بھی ہوش کے ناخن لیں گے۔ مگر افسوس ایسا کچھ نہ ہوا۔ مفتی جی شوخیوں، مستیوں سے باز نہ آئے۔ ان کی ان حرکات و سکنات سے گھر والے پہلے ہی ان سے بہت نالاں رہے ہوں گے کیونکہ ان کے بیٹے سب مولوی ہیں۔ مگر مفتی چونکہ مولوی سے بڑھ کر ہوتا ہے اس لئے وہ خاموش رہے۔ مگر اب حریم شاہ کی طرف سے ان کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو نے تو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا۔ اب وہ مفتی جی کی ان گلی محلے والے لڑکوں کی طرح کی عادتوں اور حرکات سے نالاں ہیں۔ اس لئے انہوں نے اب مفتی جی کو گھر میں نظربند کرلیا ہے۔ اہلخانہ کے بقول اب وہ ان کا نفسیاتی علاج کرا رہے ہیں کیونکہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں ان سے مفتی لقب یا خطاب کس طرح اور کس نے واپس لے لیا ہے۔ کیا یہ لقب یا خطاب بھی انہیں گھر والوں نے دیا تھا‘ کسی سرکاری ادارے نے واپس لیا ہے۔ خدا کرے مفتی جی جلد از جلد صحتیاب ہوں اور گھر کی قید سے رہائی پائیں بعد میں ان کی مرضی کہ وہ اپنی حرکات سے توبہ تائب ہوتے ہیں یا پھر پہلے کی طرح مہ جبینوں سے اٹھکیلیاں کرتے پھرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ارباب رحیم نے شکست کا ذمہ دار وزیراعظم کو قرار دیدیا
ارباب رحیم سندھ کے ایک اہم سیاست دان ہے۔ انہوں نے سیاست میں بہت اتار چڑھائو دیکھے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ مگر لگتا ہے اس بار انہوں نے اپنی ہار کو دل پر لے لیا ہے۔ وہ پیپلزپارٹی کے امیدوار سے سندھ میں ضمنی الیکشن ہارنے کی ذمہ داری وزیراعظم پر ڈال کر یا تو اپنا دل ٹھنڈا کررہے ہیں یا پھر زمینی حقائق سے حکمرانوں کو آگاہ کررہے ہیں۔ ارباب رحیم کو سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ وفاقی حکومت اور سندھ کے گورنر تک نے الیکشن کے حوالے سے ان کی بات نہیں سنی۔ سندھ میں ان کی شکایات سے لگتا ہے وفاقی حکومت بے بس ہے اور صوبائی حکومت طاقتور۔ اب واقعی ارباب جی کی بات میں وزن ہے۔ کم از کم وزیراعظم کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے امیدوار کی حمایت میں سرگرم ہوتے مگر لگتا ہے وزیراعظم بھی تسلیم کرچکے ہیںکہ اندرون سندھ پیپلزپارٹی کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے وہ بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔ اب یہ اکیلے ارباب رحیم کے بس کا روگ نہیں تھا کہ اندرون سندھ جہاں پوری صوبائی انتظامیہ بلاول زرداری ، وزیراعلیٰ سندھ سمیت الیکشن مہم چلا رہے تھے وہاں وہ جیت کر دکھاتے۔ ایسے ہی سنہری حالات کی منظرکشی کے بعد ارباب رحیم نے کہہ دیا ہے کہ اب آئندہ وزیراعظم کے کہنے پر کون الیکشن لڑے گا۔ وزیراعظم تو الیکشن لڑنے کا کہہ کر بات تک نہیں سنتے۔ اب اندرون خانہ یہ بات بھی ہورہی ہے کہ ارباب رحیم نے سیاست سے بھی کنارہ کشی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ سندھ کی ایک دبنگ سیاسی شخصیت کو اقبال کا فلسفہ یاد رکھنا چاہئے کہ…؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق میں امتحاں اور بھی ہیں
رانا ثنا اللہ ٹائیگر والا ماسک پہن کر احتساب عدالت آئے
اب یہ یا تو ان کی اپنی پارٹی سے اس کے انتخابی نشان سے محبت کی علامت ہے یا پھر وہ خود کو شیر دلیر ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ ان دو باتوں کے علاوہ تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ احتساب عدالت کو خوفزدہ کرنا چاہ رہے ہوں۔ وجہ جو بھی ہے وہ رانا جی خود جانتے ہوں گے۔ فی الحال تو لوگوں کو ان کو شیر کا نقاب پہنے دیکھ کر کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ مخالفین تو ازراہ تمسخر یہ کہہ رہے ہیں کہ شیر کی کھال پہن کر کوئی شیر نہیں بنتا۔ البتہ مسلم لیگ (ن) کے حامی جنہوں نے انہیں اس نقاب میں دیکھا وہ ضرور دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا کے نعرے لگاتے رہے۔ اب ان کی دیکھا دیکھی کہیں یہ فیشن ہی نہ بن جائے کہ ہر مسلم لیگ (ن) کا ہر رہنما یا کارکن شیر والا ماسک پہن کر ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگ جائے یوں جنگل سے زیادہ آبادی میں شیروں کی بہتات دیکھ کر بچے ڈرنے نہ لگ جائیں۔ ویسے ابھی تک رانا ثناء اللہ تمام تر مقدمات کا نہایت ثابت قدمی سے مقابلہ کررہے ہیں۔ ان کے حکومت مخالف بیانیہ میں بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ وہ نوازشریف اور مریم نواز کے سخت گیر موقف سے سرموانحراف نہیں کررہے۔ ان کے احتساب عدالت میں مختلف کیس چل رہے ہیں۔ ان کے عدالت میں آنے جانے سے موج میلہ لگ جاتا ہے۔ اس سیاسی سرکس میں اب انہوں نے شیر کا لبادہ بھی اوڑھ لیا ہے۔ دیکھتے ہیں اب رنگ ماسٹر کس چابکدستی سے سیاسی سرکس کے اس شیر کو کنٹرول کرنے یا اپنے اشاروں پر چلانے میں کامیاب ہوتا ہے یا ناکام۔
٭٭٭٭٭
3 بیویوں کے شوہر کو پہلی بیوی نے گولی مار دی
اب اس واردات پر ہم ’’تم قتل کروہو کہ کرامات کرو ہو‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ ہاں البتہ اسے ہم جلوہ کثرت ازدواج ضرور کہہ سکتے ہیں۔ یعنی یہ شادیاں رچانے کے ان خواہشمندوں کیلئے لمحہ فکریہ ضرور ہے۔ جو بیویوں میں انصاف نہیں قائم کرسکتے مگر دھڑا دھڑ شادیاں کرتے پھرتے ہیں۔ یا پھر ان لوگوں کیلئے تازیانہ عبرت ہے جو پہلی بیویوں یا بیوی سے چھپ کر شادی کرتے ہیں۔ یہ لوگ بزدل اور ڈرپوک ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو پہلی بیوی کو بتا کر دوسری شادی میں عار کیا۔ بہت کم لوگ پہلی بیوی کی زیادتیوں کی وجہ سے سکون قلب کیلئے دوسری شادی چھپ کر کرتے ہیں۔ اب تو یہ بے چارے بھی خوفزدہ ہوجائیں گے کہیں پہلی بیوی شدت جذبات سے مغلوب ہوکر فائر ہی نہ کھول دے۔ کوئٹہ میں گزشتہ روز بیوی نے دوسری شادی کے خواہشمند اپنے شوہر کو دو بچیوں سمیت گولی مار کر ہلاک کردیا۔ وہاں بھی یہی دوسری شادی کا تنازعہ تھا۔ ایسے معاملات میں ثالثی کونسلیں موجود ہیں۔ حکومت کی طرف سے پہلی بیوی کی اجازت لازمی ہے۔ اس لئے خواتین قانون کا سہارا لے کر زبردستی یا چھپ کر دوسری شادی کرنے والے شوہروں کو قانون کے شکنجے میں کس سکتی ہیں۔ یوں جان لینے کی اجازت درست نہیں۔ اس لئے پہلی بیوی یا بیویاں براہ راست شوہر کو گولی مارنے کی بجائے قانون کا سہارا لیں وہاں ان کی دادرسی ہوسکتی ہے۔ اب کراچی میں پہلی بیوی اپنے ساتھ دو اور بیویوں کو بھی بیوہ کرگئی۔ ملزمہ نے مقتول کے سر میں گولی ماری جہاں شاید چوتھی شادی کا خیال بھی آرہا تھا یا آنے والا تھا سچ کہتے ہیں؎
ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازعروساں
کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کیلئے