مہنگائی کا جن قابو کریں

گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا ۔گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ فی الحال شرح سود سات فیصد برقرار رہے گی ،ضرورت پڑی تو اس میں مناسب طریقے سے اضافہ کیا جائے گا ملکی معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں تاہم ابھی حالات اتنے بہتر نہیں ہوئے جتنی امید تھی۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، مہنگائی میں یا بجلی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ وقتی ہے تاہم بجلی کے نرخ بڑھنے سے مہنگائی میں مزید اضافہ کا خدشہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کا خیال تھا کہ طلب میں دبائو نہیں کیونکہ ہماری صلاحیت مکمل طور پر زیر استعمال نہیں پہلے کے مقابلے میں حالات بہتر ہو رہے ہیں ۔ معاشی بحالی کو سپورٹ کرنے کے لئے مانیٹری پالیسی برقراررکھنا ضروری ہے ۔
معیشت میں بہتری کے حوالے سے گورنر سٹیٹ بینک کے بیان اور روز افزوں مہنگائی کے حوالے سے زمینی حقائق میں زمین اور آسمان کا فرق ہے ۔ گورنر سٹیٹ بینک کا بیان مالی مشکلات کے شکار عوام کے لئے طفل تسلیوں کا باعث تو ہوسکتا ہے ،اسے امید کی کرن تو کہا جا سکتا ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے بیانات خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے کروڑوں عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوسکتے۔غریب عوام کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے حکمرانوں کے دعوے تو بلند وبالا ہیں مگرحقیقت یہ ہے کہ ملک میں غربت کے تدارک کے بجائے غریب عوام کو مسلسل موت کی وادی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ توانائی کا بحران اپنی جگہ مگر بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ،عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے، یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا کچھ معلوم نہیں ۔بجلی کی قیمت میں حالیہ یکمشت ایک روپیہ، پچانوے پیسے فی یونٹ اضافے کی جو بھی منطق پیش کی جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ ہر طبقے کے صارفین کے لئے پریشانی کا باعث ہوگا۔ پچاس یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے لائف لائن صارفین کو عام طور پر نرخوں میں اضافے کے اثرات سے محفوظ رکھاجاتا ہے اور حکومتیں اس اقدام کا اس طرح کریڈٹ لیتی ہیں کہ بجلی مہنگی ہونے کے باوجود غریب آدمی کے لئے مالی بوجھ میں اضافے کا سبب نہیں بن رہی تاہم گذشتہ دو دہائیوں میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ لائف لائن صارفین کا لحاظ کئے بغیر بجلی کی مجموعی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا ۔اس اقدام کے غریب آدمی پر مرتب ہونے والے منفی معاشی اثرات کا حکمران کوئی جواز پیش نہیں کر سکتے۔ ہمارا بجلی کا شعبہ بد نظمی اور غیر پیشہ ورانہ انداز سے معاملات کو دیکھنے اور چلانے کی شرمناک مثال ہے ، جب معاملات قابو سے باہر ہوتے ہیں تو کوتاہیوں اور ناکامیوں کے غیر منطقی جواز پیش کئے جاتے ہیں۔بجلی اور گیس کے حالیہ اضافے کے لیے آئی پی پیز کو ادائیگیوں کاجواز پیش کیا گیا اور کہا گیاکہ ماضی کی حکومت نے جان بوجھ کر ایسا نظام بنایا کہ ان رقوم کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔
ماضی کی حکومت کی نالائقی میں کسی کو شک نہیںمگرموجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے اڑھائی سال ہو چکے ہیں اور اب عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیںکہ آخر کیا وجہ ہے کہ نصف دور حکومت گزار کر بھی موجودہ حکومت اس قابل نہیں ہو سکی کہ اپنی راہ میں بچھائے گئے کانٹوں کو چن سکے۔بجلی کے حالیہ نرخ بڑھانے کا جواز تو خیر بجلی پیداکرنے والی کمپنیوں کو ادائیگی کرنا بتایا گیا ،سوال یہ ہے کہ اس سے قبل دو سال کے دوران جتنی دفعہ بجلی کے نرخ بڑھائے گئے ان کا جواز کیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موجودہ حکومت بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کا جواز پچھلی حکومت کی ناقص منصوبہ بندیوں کو قرار دینے کے بجائے اصلاح احوال کے لئے خود بھی کچھ کرتی ،افسوس ایسا نہیں ہوا اور متعلقہ ارباب اختیار توانائی کے نرخوں میں اضافہ کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو قرار دیتے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی راہ اپناتے ہیںجبکہ حقائق عوام پر واضح ہو چکے ہیں، حکمران جان لیں کہ عوام اب ان کھو کھلے اور خلاف حقیقت بیانات پر کان دھرنے والے نہیں۔
حکومت کی جانب سے معیشت میں بہتری کے دعوے اس وقت تک عوام کو مطمئن نہیں کر سکتے جب تک ان مثبت اقدام کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پاتے ۔ معیشت میں بہتری کے دعوے گورنر سٹیٹ بینک کی طرف سے ہوں یا دیگر ارباب اختیار کی طرف سے اگر ان دعوئوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے مخلصانہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو مہنگائی کا جن یقینا بے قابو رہے گا اور عوام مالی مشکلات کا شکار ۔ماہرین معیشت باربار حکمرانوں کی توجہ اس طرف مبذول کرتے چلے آ رہے ہیں کہ قوم سے ایسے وعدے کرنے سے اجتناب کیا جائے جو پورے نہیں ہو سکتے۔ وعدوں اور وعدہ خلافیوں کا تسلسل عوام میں حکمرانوں کے حوالے سے اچھے تاثرات نہیں چھوڑ رہا ۔گذشتہ دو برسوں میں بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں پے در پے اضافوں نے ملک میں مہنگائی کا نہ روکنے والا طوفان برپا کر دیا ہے ،جب تک مہنگائی کے اس طوفان کی شدت کم نہیں ہوتی عوام اور حکمرانوں میں باہمی اعتماد کا فقدان یقینی امر ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان ملک سے غربت ،مہنگائی اور بے روز گاری کے خاتمے کے لئے پُر عزم ہیں اور مخلصانہ اقدامات بھی اٹھا رہے ہیں تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وزیر اعظم کے معیشت میں بہتری لانے کے اقدامات کے ثمرات جب تک غریب عوام کومنتقل نہیں ہوتے اس وقت تک ان اقدامات کو عوام میں پذیرائی ملنا مشکل ہے۔ وزیراعظم اس حوالے سے بار بار اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں ،افسوس کہ ایک مخصوص طبقہ جس کے بار ے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ طبقہ حکومت کا حصہ ہے ،وزیراعظم کے معیشت میں بہتری کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچنے دے رہا ،یہ طبقہ جو تمام شعبہ ہائے زندگی میں اپنا تسلط رکھتا ہے مختلف مافیائوں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ ان مافیائوں سے نجات ملک میں قانون کی بالا دستی سے مشروط ہے کہ ارباب اختیار ملک میں اپنی رٹ قائم کرنے کے لئے جتنی تاخیر کریں گے اس کا فائدہ ان مافیائوں کو ہوگا جو عوام کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنے کے لئے اشیائے ضرورت کے نرخ اپنے مرضی سے مقرر کرتے ہیں ۔وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ ملک سے ان مافیائوں کا قلعہ قمع کرنے کے لئے صوبائی حکومتوں کے تعاون سے ٹھوس اقدامات اٹھائیںاور کسی سیاسی مصلحت کو خاطر میں لائے بغیر انسانیت کے ان دشمنوں کو عبرت کا نشان بنادیںتاکہ مہنگائی کا جن پر قابو پایا جا سکے۔