پاکستانی طرز سیاست کی جنگ

مکرمی! پاکستان کی سیاست بھی آجکل عجیب مخمصوں کا شکار ہے۔ ایسی سیاست پاکستان کے علاوہ شاید ہی کسی اور ملک میں ہو۔ عیب جوئی‘ طعن و تشنیع اور جھوٹی انا پرستی کے علاوہ اب سیاست میں رکھا ہی کیا ہے؟ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے ترجمان اپنی بے جا بیان بازیوں سے جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں۔ انتقامی سیاست اور سج دھج سے پروان چڑھ رہی ہے۔ ملکی اور عوامی مسائل پارلیمنٹ کے ایوانوں میں زیربحث لانے کی بجائے سڑکوں اور چوراہوں میں گھسیٹے جا رہے ہیں۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جا رہی ہے۔ نت نئے سکینڈلز پاکستان میں جنم لے رہے ہیں۔ پھر ایک دوسرے پر نہ ختم ہونے والی الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور پھر اپنی تمام تر توانائیاں بے تکی اور بیکار الزام تراشیوں کی نذر کر دی جاتی ہیں۔ ایسی ہی کارروائیوں سے سیاسی میدان کو گرمایا جا رہا ہے۔ برسراقتدار طبقہ کی تمام تر توجہ ملکی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کی بجائے اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور بے جا بیان بازیوں پر مرکوز ہے۔ اپوزیشن کی تمام تر کوششیں حکومت وقت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی گرانے پر صرف ہیں‘ عجیب قسم کا تماشا ہے جو ملک میں لگا ہوا ہے۔ وزیروں‘ مشیروں اور حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج پر ملکی خزانہ بے دریغ لٹایا جا رہا ہے جن کا کام صرف اور صرف بیان بازیوں‘ نوٹسز اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے اپوزیشن کو نشانہ پر رکھنا اور ان کے عیبوں کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کرنا ہے۔ ملکی پالیسیوں میں کوئی تسلسل نہیں ہے۔ معاشی ترقی کے اعشاریئے غیر تسلی بخش رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔ روز افزوں مہنگائی کی چکی میں عوام پستے چلے جا رہے ہیں۔ بیروزگاری میں ہوشربا اضافہ کسی طوفان کا پیش خیمہ نظر آتا ہے۔ پچھلے اڑھائی سال کے عرصہ میں عوام کو کچھ بھی ڈیلیور نہیں کیا جا سکا۔ مافیا عوام کو لوٹنے میں مگن ہیں‘ لیکن ان پر ہاتھ ڈالتا کوئی نہیں۔ ملک کا سب سے بڑا آئین ساز ادارہ مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کے اجلاس مچھلی منڈی کے منظر سے کم نہیں ہوتے۔ اب تو صدر‘ گورنر‘ سپیکر وغیرہ جو غیر جانبداری کی علامت سمجھے جاتے تھے‘ سیاسی بیان بازیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیکر اپنی سیاسی وفاداریوں کا برملا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ ملک کا آئین انہیں اس بات کی اجازت نہیںدیتا۔ آئی ایم ایف کی ٹیم کو ملک کی معاشی پالیسیوں کی امین بنا دیا گیا ہے۔ غیرملکی قرضوں میں بے پناہ اضافہ‘ نجانے ملک اور عوام کیا قیامت ڈھا رہا ہے۔ آخر ملک اور قوم کا درد کب ان کے دلوں میں جاگے گا اور یہ اپنے آئینی فرائض منصبی سے کب عہدہ برا ہونگے۔ ملک اور قوم کے نمائندے اپنے اپنے حلقوں میں جا کر عوام کو کیا منہ دکھائیں گے؟ وہ وعدے وعید جو انہوں نے اپنے حلقے کے عوام س کئے ہیں یا نہیں اگر نہیں‘ یقینی طورپر نہیں تو پھر اپنی شکست کا بے رحم تقدیر کے تھپیڑوں کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے ابھی سے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ لیں بہتر یہی ہوگا۔(رانا ارشد علی۔ گجرات)