آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
نجی ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریٹر ملک لیاقت علی جو اب ہم میں نہیں رہے وہ ایک ہی تھا اس جیسی شخصیت کے حامل شخص صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
وہ بہت پیارے انسان تھے لوگوں کے دلوں میں گھر کر جانے کا فن بخوبی رکھتے تھے آج سے کئی سال پہلے میرے ساتھ ان کی پہلی ملاقات ان کے دفتر میں ہوئی تھی میں کسی کام کے سلسلے میں ان کے پاس گیا آپ اپنی زندگی میں یونیورسٹی کے معاملات کو بھی ڈیل کیا کرتے تھے میں نے انکے دفتر کی استقبالیہ پر جاکر اپنا بتایا تو انہوں نے مجھے فوراً اپنے کمرے میں بلا لیا جب میں کمرے میں داخل ہوا تو آپ اپنی سیٹ سے اٹھ کر کھڑے ہوئے اور میرے ساتھ بغل گیر ہوئے بیٹھتے ہی آپ نے مجھے چائے اور بسکٹ پیش کیے پھر کہنے لگے کہ کیسے آنا ہوا بتائیں کیا کام ہے میں نے فائل آگے رکھی تو اوکے کر کے کہنے لگے یہ کام تو آپ کا ہوگیا میں نے ان کا بھرپور شکریہ ادا کیا پھر اس طرح ان کے ساتھ ملاقاتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا آپ ایک درویش صفت انسان دوست ہردلعزیز اور شفیق القلب خداداد صلاحیتوں کے بھرپور مالک تھے اور بڑے باہمت اور پر عزم تھے ایک فاضل محقق، محنتی شگفتہ مزاج کھلے دل و دماغ سے کام لینے والے اور ہمیشہ ہشاش بشاش رہنے والے انسان تھے۔ آپکے بارے میں آپکی زندگی میں لوگ کہا کرتے تھے کہ آپکی ڈکشنری میں انکار کا لفظ ہے ہی نہیں یہی وجہ تھی کہ جو بھی آپکے دفتر یا گھر پر کسی کام کے سلسلے میں آیا اسے آپ نے خالی نہیں جانے دیا اسکی جس حال میں جس طرح جیسے ہوسکی بھرپور مدد کی ۔ وہ اپنے سٹاف اور حلقہ احباب کی جان تھے کہ دوستوں پر جان چھڑکتے تھے یہ اپنے کام کو کام سمجھتے ہوئے بس صرف کام،کام اور کام انہیں کسی پل آرام نہیں تھا پیشہ ورانہ فرائض سے فرصت ملتی تو محفلوں کی رونق ہوتے خوش خوراک بھی تھے اور خوش اطوار بھی لڑنا جھگڑنا تو سیکھے ہی نہ تھے اپنی بات کے بڑے پکے تھے جس کسی سے جو بھی وعدہ کرتے پورا کرنے کی بھرپور کوشش کیا کرتے تھے اور اپنے نظریات کا پہرا دیتے پسند ناپسند پر ڈٹ جاتے انکی یہ خوبی تھی کہ ذاتی تعلق کسی بھی صورت میں مجروح نہ ہونے دیتے آپ غریب پرور اور خوش اخلاق تھے اور بغیر کسی لالچ کے غریبوں اور بیواؤں کی مدد کیا کرتے تھے ان کا یہ عظیم کارنامہ بھی ضرورت مندوں کے توسط سے اس وقت پتہ چلا جب انکی اچانک وفات پر اظہار افسوس کیلئے انکے بڑے بھائی ملک آصف علی اور چھوٹے بھائی ملک ریاض علی بیٹا ملک عدیل سے فاتحہ خوانی کر رہے تھے کہ اس دوران تحصیل پتوکی کے نواحی چک نمبر 7 گیلن سے آئے ہوئے مرزا نعیم بیگ زمین دار جوان کے دیرینہ دوست ہیں انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں ان کو ملنے انکے گھر پر آیا اور مجھے کہنے لگے بیٹھیں گے پھر پہلے میرے ساتھ چلو ایک بیوہ خاتون کی بیٹی کی شادی ہے اسکے جہیز کا سامان وہاں سے لیکر اسکے گھر پہنچانا ہے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب عید آتی تھی تو اس سے قبل ہی وہ اپنی جیب میں اپنے سٹاف کو دینے کیلئے عیدی رکھتے تھے ہر سال پورے سٹاف کو عیدی دیا کرتے تھے یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور وہ مہمان نوازی میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ بھائی ملک ریاض علی نے بتایا کہ جب ہسپتال میں داخل تھے تو ایک محلہ کی خاتون آئی کہنے لگی میرا یہ کام ہے آپ نے فورا اپنے بھتیجے کو بلوایا اور حکم دیا کہ اسکے ساتھ جاؤ اور فورا اس کا کام کروا کر آؤ پھر ایک اور آدمی آ گیا وہ کہنے لگا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں مہربانی کرکے میرا اشتہار لگوا دیں آپ نے فورا اس کا اشتہار لگوانے کا کہا کسی کو بھی انکار کرنا تو آپکی شخصیت میں شامل ہی نہیں تھا.آپ نے ایک روزنامہ اور نجی ٹی وی چینل پر بطور ڈائریکٹر ایڈمنسٹریٹر کے طور پر گزشتہ 30 سال سے اپنے فرائض انتہائی ایمانداری اور لگن سے انجام دیے ادارہ کیلئے آپ کی خدمات اور دوستوں سے خلوص اور محبت اور پیار کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو زمانہ ہمیشہ یاد رکھے گا آپ معمولی درد کے باعث ہسپتال گئے اور وہاں پر 12 جنوری 2021 کو 64 برس کی عمر میں اس دنیا فانی کو خیر باد کہہ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے آپکے پسماندگان دو بیٹے دو بیٹیاں اور ایک بیوہ ، دعا ہے اللہ پاک آپکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین