پاکستان نے امریکہ کیلئے بہت کچھ کیا‘ اب اسکی باری ہے
وزیراعظم کا کسی کی جنگ کا حصہ نہ بننے کے اعلان کا اعادہ‘ امریکہ نے پاکستان کیلئے کیا کیا‘ پراپیگنڈے پر چین کا تلخ سوال
ہم کسی بھی ملک کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہم صرف امن کے خواہاں ممالک کے شراکت دار ہوں گے۔ بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ ہم نے ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی ختم کرانے کی کوشش کی۔ ٹرمپ کو کہا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ نہیں ہونی چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم عمران خان نے ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم اور عالمی میڈیا کونسل سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا دہشتگرد ی کیخلاف جنگ میں 70 ہزار پاکستانیوں نے قربانیاں دیں۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں بم دھماکے دیکھنے میں آئے ۔ پاکستان افغانستان میں امن کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے۔ ماضی میں افغانستان پر سابق حکومتوں نے امریکہ سے وعدے کر کے غلطی کی۔ امریکہ سے جھوٹے وعدے کیے گئے، اس سے کیے گئے وعدے پورے کرنا ممکن نہیں تھا۔ پاکستان افغانستان کی صورتحال سے متاثر ہوتا ہے۔ افغانستان میں امن ہو گا تو وسط ایشیا تک رسائی ملے گی۔ افغان مسئلے کا فوجی نہیں سیاسی حل ہے۔
نائن الیون کے بعد پاکستان کی طرف سے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ پاکستان کیلئے ایک ناسور ثابت ہوا جس سے آج بھی اسکے باوجود خون رس رہا ہے کہ امریکہ اپنی طرف سے دہشت گردی کیخلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچا کر واپسی کا رختِ سفر باندھ رہا ہے۔ امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ میں ساتھ دینے کا فیصلہ فوجی آمر پرویز مشرف نے تن تنہا کر دیا۔ اس وقت پارلیمنٹ تو نہیں تھی مگر انکی کابینہ ضرور موجود تھی۔ اس سے بھی فردِ واحد نے اقتدار اور اختیار کے نشے میں مشورہ کرنا مناسب نہ سمجھا اور پھر صدر بش کے نائب وزیر دفاع آرمٹیج نے جو کچھ کہا بلاچوں چراں مان لیا۔ شاید اسکی یہ دھمکی کارگر رہی‘ ’’بتائیں آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ۔‘‘ آج کے وزیراعظم عمران خان جیسے بہت سے لوگ امریکہ کی اس جنگ کا حصہ بننے کیخلاف تھے۔ مگر صدر جنرل پرویز مشرف فیصلہ کرچکے تھے۔ ڈیووس ہی میں خطاب کے دوران عمران خان نے کہا کہ ہم 70 ہزار جانوں کی قربانی دے چکے اور 100 ارب سے زائد کے نقصان سے دوچار ہوئے ہیں۔ حالیہ برسوں امریکہ نے ترکی سے شام میں کارروائی کیلئے ایک فوجی اڈہ مانگا تھا‘ ترکی نے 55 ارب ڈالر کی ڈیمانڈ کی‘ امریکہ اتنی ادائیگی پر تیار نہ ہوا جبکہ پاکستان کی طرف سے افغانستان پر یلغار کرنے کیلئے شاہراہیں اور تین ایئربیسز امریکہ کے حوالے کردیئے گئے اور ایسا بھی ہوا کہ پاکستان میں بمباری کیلئے امریکی ڈرون بھی انہی اڈوں سے اڑتے رہے اور یہ سلسلہ مشرف کے بعد جمہوری دور میں بھی جاری رہا۔
آج امریکہ اور ایران کے مابین کشیدگی کا اونٹ بدستور کھڑا ہے۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کس کروٹ بیٹھے گا۔ تاہم سردست جنگ کے امکانات میں کمی ضرور ہوئی ہے۔ ایک موقع پر جنگ کے بادل گہرے ہو چکے تھے‘ امریکہ کے جنرل سلیمانی پر حملے اور ایران کے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بعد جنگ یقینی تھی لیکن پاکستان سمیت کچھ ممالک کی صلح جویانہ کوششوں سے صورتحال بہتر ہونے لگی۔ ایسی ہی کوششیں نائن الیون کے بعد بھی ہوتیں تو شاید افغانستان بھیانک تباہی اور پاکستان دہشت گردی کے پنجوں میں آنے سے محفوظ رہتا۔ برسبیل تذکرہ ایران امریکہ بدترین کشیدگی کے دوران پاکستان نے کسی بھی فریق کا ساتھ نہ دینے کا دوٹوک اعلان کیا‘ اس سے بھی امریکہ نے ایران پر حملے سے گریز کیا ہوگا۔ ایسی ہی پالیسی نائن الیون کے دوران اپنائی جاسکتی تھی مگر اب پچھتائے کیا ہووت…۔ تاہم سبق ضرور حاصل کیا جاسکتا ہے جو غالباً پاکستان کی موجودہ قیادت نے حاصل کرلیا ہے۔ اب ایک بار پھرکہا ہے کہ صرف امن کے شراکت دار ہونگے‘ کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ایران امریکہ کشیدگی بظاہر کم ہوتی نظر آرہی ہے مگر عمران خان کی طرف سے جب ٹرمپ سے ڈیووس میں ملاقات کے دوران یہ کہا گیا کہ جنگ سے ہر طرف تباہی ہوگی تو ٹرمپ نے خاموشی اختیار کی جسے کچھ حلقے کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی قرار دے رہے ہیں مگر حالات کے بگڑنے کے خدشات کے تحت بہتری کی کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔ جنگ سے صرف ایک فریق ہی کی تباہی اور نقصان نہیں ہوتا‘ جیتنے والا بھی دہائیوں زخم سہلاتا ہے۔ امریکہ ایران ممکنہ جنگ سے فتح کے امکان کے نشے میںچور امریکہ کو بھی نقصان سے دوچار ہونا پڑیگا۔ جنگ سے گریز اسکے بھی مفاد میں ہے۔
پاکستان نے ممکنہ حدتک امریکہ کے مفادات کے تحفظ کی کوشش کی۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ سابق حکومتوں نے امریکہ کے ساتھ وعدے کرکے غلطی کی اور امریکہ سے جھوٹے وعدے بھی کئے گئے جو پورے کرنا ممکن نہیں تھا۔ ایسے وعدے ہو سکتا ہے امریکی دبائو پر کئے گئے ہوں‘ اب امید کرنی چاہیے کہ موجودہ حکومت ایسے وعدے نہیں کریگی اور امریکہ کو صحیح تصویر بھی دکھانے سے گریز نہیں کریگی۔ ایسے وعدوں کے باعث پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات کھچائو کا شکار رہے جن میں اب بہتری آرہی ہے۔ آج کی سیاسی اور عسکری قیادت نے امریکہ اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھادیا۔ امریکہ نے کچھ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا‘ پاکستان کے توسط سے طالبان قیدیوں کے تبادلے پر بھی تیار ہوگئے۔ اعتماد سازی کیلئے طالبان پاکستان کی کوششوں سے امریکی مفادات پر حملوں میں کمی پر بھی تیار ہو گئے۔ اب امریکہ طالبان مذاکرات حتمی مرحلے میں داخل ہورہے ہیں۔ امریکہ ایک طویل جنگ‘ افغانستان میں لاکھوں لاشیں گرانے‘ اپنی اور اتحادی فوج کی ہزاروں لاشیں اٹھانے کے بعد آج بالآخر مذاکرات کی میز پر آکر ہی امن کی تلاش میں ہے۔ کیا بہتر نہیں کہ ایران کے ساتھ بھی مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کئے جائیں۔
آج پاکستان اور بھارت بھی جنگ کی دہلیز پر بھارت کے جارحانہ رویوں کے باعث کھڑے ہیں۔ امریکہ اس کشیدگی کو ختم کرانے کی پوزیشن میں ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے کشمیر پر ثالثی کی باربار پیشکش کی گئی۔ بھارت نے اسے ہربار مسترد کردیا۔ یہ بھارت کی ہٹ دھرمی سے زیادہ بدمعاشی اور غنڈہ گردی ہے۔ امریکہ یکا و تنہا ثالثی کی پیشکش کے بجائے چین اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ فورم بنا کر بھارت پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے دبائو ڈالے۔ ایسے فورم کو ثالثی کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے اب اپنے حصے کا کام کردیا ہے جس کا اعتراف امریکہ خصوصی طور پر ایلس ویلز کی طرف سے پاکستان کے دورے کے دوران بھی کیا گیا۔ اب امریکہ کی باری ہے‘ وہ پاکستان کیلئے کچھ کرے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اس کا کردار پاکستان کیلئے اطمینان کا باعث ہوگا۔
ایلس ویلز نے اپنے دورے کے دوران پاکستان کے امریکی مفادات کیلئے کردار کو سراہا مگر کچھ ماہ قبل کی طرح حالیہ کے دورے کے دوران ایک بار پھر چین اور پاکستان کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جو سفارتی آداب کے منافی ہے۔ ایلس ویلز نے ایک بار پھر کہا کہ سی پیک منصوبوں میں کوئی شفافیت نہیں اور چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ایم ایل ون کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس منصوبے میں وہ چینی کمپنیاں شامل کی گئی ہیں جنہیں ورلڈ بنک بلیک لسٹ کر چکا ہے۔ اس پر چینی سفارتخانے کے ترجمان نے سخت نوٹس لیتے ہوئے پاکستان کے جذبات کی بھی ترجمانی کی ہے۔ چینی ترجمان نے باور کرایا کہ نومبر 2019 ء میں بھی ایلس ویلز ایسے خیالات کا اظہار کر چکی ہیں جنہیں پاکستان اور چین دونوں نے مسترد کر دیا تھا۔ امریکی عہدیدار پھر حقائق کو جھٹلا رہے ہیں۔ ہمیں بہت خوشی ہو گی کہ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوں لیکن ہم اس بات کی سختی سے مخالفت کرینگے کہ امریکہ پاکستان اور چین کے تعلقات اور سی پیک میں مداخلت کرے۔ سی پیک منصوبوں میں چین اور پاکستان نے سختی سے باہمی مشاورت کے اصولوں کی پابندی کی ہے۔ ہمیں پاکستانی عوام کا مفاد پہلے عزیز ہے۔ 5 سالوں میں 32 منصوبوں کے بہتر نتائج حاصل ہوئے ہیں اور وہ وقت سے بہت پہلے مکمل ہو گئے ان کے نتیجہ میں لوکل ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر اور پاور سپلائی میں زبردست بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ 75 ہزار ملازمتیں پیدا ہوئیں اور پاکستان کی جی ڈی پی پیداوار میں1 سے 2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ترجمان نے واضح کیا ہے کہ ہم امریکہ کو یہ مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ جب امریکہ پاکستان چین کے تعلقات پر الزام عائد کرتا ہے تو اسے پہلے ماضی کی طرف دیکھنا چاہئے کہ اس نے پاکستان کیلئے کیا کیا۔ کیا ایلس ویلز اپنے دورہ کے دوران پاکستان کیلئے کوئی ایڈ‘ سرمایہ کاری یا تجارتی فوائد لائیں۔ امریکہ کی طرف سے چینی ترجمان کے جواب کا انتظار ہے۔ خصوصی طور پر امریکہ یہ ضرور بتائے کہ اس نے پاکستان کیلئے کیا کیا اور اب جبکہ اسکے پاس بہت کچھ کرنے کا وقت ہے تو وہ کیاکرنا چاہتا ہے۔