کیابھارتی مسلمان خوف سے نکل رہا ہے؟
بی جے پی کی بھارتی حکومت کی طرف سے شہریت کے قانون میں کی گئی ترمیم سی اے اے کے خلاف کیرالہ کے بعد مشرقی پنجاب کی اسمبلی نے بھی متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کرلی ہے جس میں مرکزی سرکار کی حامی اکالی دَل نے ناصرف پنجاب کی کانگریس حکومت کا ساتھ دیا ہے بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر دہلی کے انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ اپنے اتحاد کو توڑتے ہوئے وہاں کے ریاستی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جس پر بی جے پی کو ایک بڑاسیاسی جھٹکا لگا ہے اور پہلے سے ہی مستحکم نظر آنے والی کے جری وال کی عام آدمی پارٹی مزید مضبوط ہوگئی ہے اور اب اس کی کامیابی ایک یقینی امر بن گئی ہے۔ جب سے بھارتی پارلیمنٹ میں شہرت کا متنازعہ قانون پاس ہوا ہے اس وقت سے لیکر اب تک بھارت بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جگہ جگہ دھرنے، جلسے اور جلوس منعقد ہو رہے ہیں دارالخلافہ دہلی میں شاہین باغ کے مقام پر شروع ہونے والے عورتوں کے دھرنے نے ایک ایسی تاریخ لکھی ہے جس کی بھارت کی پوری سیاسی تاریخ میں مثال ڈھونڈنا مشکل ہے اور اب تویہ صورتحال ہے کہ پورے بھارت میں درجنوں شاہین باغ قائم ہو چکے ہیں جہاں بھارتی عورتیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کردن رات بیٹھی ہوئی ہیں اور بھارت کے آئین کے مطابق انہیں حاصل اپنے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ شروع شروع میں بھارتی حکمران طبقے اور وہاں کے میڈیا نے شہریت کے اس قانون کو صرف بھارتی مسلمانوں کا مسئلہ بنانے کی پوری کوشش کی تھی لیکن آہستہ آہستہ بھارتیوں کو یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ اس مسئلہ کا تعلق کسی خاص مذہب سے زیادہ بھارت کے نچلے، غریب، محروم اور پسے ہوئے طبقوں سے ہے جن کے پاس اپنی شہریت کے لیے مطلوبہ ثبوت اور کاغذات نہیں ہیں اس لیے ایک وقت آجائے گا جب انہیں دوسرے درجے کا شہری قرار دے کر ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دیا جائے گا اس کے علاوہ بھارت کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہی بی جے پی نے بھارتی معیشت کو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ اب وہاں بے روزگاری ہے،غربت ہے لوگوں کو ملازمتیں نہیں مل رہیں ،صنعت کاپہیہ رک گیا ہے جبکہ چند سال قبل تک آٹھ اور نو تک پہنچ جانے والی بھارتی جی ڈی پی آج 4.5 تک پہنچ چکی ہے اور اب بھی اس کی گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے اس لئے بھارتیوں کو در پیش غربت اور بے روزگاری کے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے شہریت کے قانون میں الجھانے کی مرکزی حکومت کوشش کر رہی ہے لیکن اب بھارتی عوام ساری صورتحال کو بھانپ اور جان چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ مذہب اور ذات سے اوپر اٹھ کر سب بھارتی شہری مرکزی حکومت کے خلاف بیک زبان ہوکر احتجاج کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ مرکزی حکومت کے شہریت کے قانون کے خلاف بہت ساری ریاستوں نے بغاوت کا جھنڈا بلند کر رکھا ہے خاص طور پر جن ریاستوں میں اپوزیشن کی حکومتیں قائم ہیں ان سب نے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ کر لیاہے یہ ریاستیںسپریم کورٹ میںبھی زیر سماعت شہریت کے قانون میں ایک ایک کرکے فریق بن رہی ہیں جہاں گزشتہ روزہی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے چار ہفتوں کی مہلت دی ہے۔
بھارت میں جاری حالیہ احتجاج اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں اپوزیشن قیادت کی بجائے بھارتی طلباء اور خاص طور پر خواتین حصہ لے رہی ہیں جن میں سے اکثریت مسلم خواتین کی ہے تاہم چھوٹی قومیتوں سے تعلق رکھنے والی اور دلت خواتین بھی اس تحریک میں پیش پیش ہیں جبکہ بھارت بھر میں یونیورسٹیوں کے طلباء کی اکثریت بھی شہریت کے اس قانون کے خلاف صف آراء ہیں یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس کی توقع نہ تو بی جے پی کر رہی تھی اور نہ ہی بھارت کی اپوزیشن کا یہ خیال تھا کیونکہ گزشتہ ستر سال کے دوران بھارت میں رہنے والے مسلمان انتہائی خوف کی حالت میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور تھے یہی وجہ ہے کہ بھارت میں بابری مسجد کا مسئلہ ہو ‘کشمیر سے متعلق آئین کی دفعہ 370 کو کالعدم قرار دینے کا سوال ہو یا مسلم خواتین کے حوالے سے تین طلاق کا ایشو ہو‘ بھارتی مسلمانوں نے ہمیشہ چپ رہنے کوہی ترجیح دی لیکن اب جب انہیںیہ یقین ہوگیا ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کی شکل میں بھارتی آئین میں کی جانے والی ترمیم کے بعدانہیں ملک میں دوسرے درجے کا شہری قرار دے کر ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے تو انہوں نے ملک بھر میں اپنی خواتین اور بچوں کے ذریعے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا ہے جس کی آواز دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے جس پر خود بی جے پی بھی اندر سے سہمی ہوئی نظر آرہی ہے۔ بھارتی مسلمان اپنا مقدمہ بہت اچھے طریقے سے پیش کر رہے ہیں بھارت کی اپوزیشن اور خودپاکستان کو بھی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کی بجائے ان کے لیے دعا کرنی چاہیے کیونکہ اب زیادہ دیر تک بھارت کے مسلمانوں کی آواز کو دبانا ممکن نہیں ہے انسان اس وقت تک چپ رہتا ہے جب تک وہ خوفزدہ رہتا ہے لیکن جب وہ خوف کی کیفیت سے نکل آتا ہے تو پھر قدرت بھی اس کے لئے بہت سارے راستے کھول دیتی ہے اور آج ہم بھارت میں اسی حقیقت کا مشاہدہ کر رہے ہیں یہ وہی بھارت ہے جہاں مسلمان اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے بھی خوفزدہ ہوتے یا شرماتے تھے اوراب پورے اعتماد کے ساتھ علامہ اقبا لؒ یا فیض احمد فیض کی شاعری پڑھ رہے ہیں اور بی جے پی کی ناانصافی سے آزادی حاصل کرنے کے نعرے لگا رہے ہیں حیرت تو یہ ہے کہ آج ان کی آواز میں بھارت کے پسے ہوئے تمام ہندو طبقات کی آواز بھی شامل ہو چکی ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو ان کی کامیابی کی ضامن بنتی جا رہی ہے ۔