شہریت ترمیمی بل ،بھارت میں درجنوںمسلم گھرانے نذرآتش

بھارتی میں شہریت کے ترمیمی بل کے خلاف آسام سمیت مختلف ریاستوں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ آسام، منی پورہ، تریپورہ اور بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں مسلسل ہلچل کا شکار ہیں۔ بی جے پی کی اتحادی اکالی دل نے بل میں مسلمان تارکین وطن کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ بھارتی ریاستوں میں تعلیمی و کاروباری ادارے بند اور امتحانات ملتوی کر دیئے گئے۔ترجمان ریلوے کے مطابق پورے آسام میں ریل سروسز متاثر ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کے احتجاج پر حکومت نے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ بھارتی پولیس نے مسلم گھروں پر دھاوا بول دیا۔گھروں میں گھس کر خواتین و بچوں پر تشدد کیا۔ املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔گاڑیاں توڑ دیں۔ مسلم علاقوں میں کرفیو کی سی صورتحال ہے۔ بوکھلاہٹ کا شکار مودی سرکار نے مختلف شہروں میں انٹرنیٹ سروس بند کر رکھی ہے۔ بھارتی پولیس کے ہاتھوں نہتے اور مظلوم طالب علم بھی تشدد کا نشانہ بننے لگے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے 10 ہزار طلباء کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ان طلبا کے خلاف ہنگامہ آرائی، فساد پھیلانا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور کارسرکار میں مداخلت کے مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ پولیس افسر نے احتجاج میں شامل مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ بھی دیا۔ پولیس نے احتجاجیوں کے خلاف ربڑ کی گولیاں، آنسو گیس اور مرچ کے سپرے کا آزادانہ استعمال کیا۔ نئی دہلی کی جواہر لعل نہرویونیورسٹی کے طلبا کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کو چننا ہماری بڑی غلطی تھی۔ ہم نے جس حکومت کو چنا وہی ہمیں کاٹ کھانے کو آرہی ہے۔ بھارتی ریاست کیرالہ کی حکومت نے متنازعہ شہریت قانون کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے جس کے بعد کیرالہ متنازع شہریت قانون سپریم کورٹ میں چیلنج کر نے والی پہلی بھارتی ریاست بن گئی۔ کیرالہ اسمبلی شہریت بل سے متعلق قرارداد پاس کرچکی ہے کہ شہریت قانون سیکولرازم کیخلاف ہے۔ سپریم کورٹ میں مختلف افراد ، سیاسی تنظیموں کی جانب سے متنازع شہریت قانون کے خلاف کم ازکم 60پٹیشنز دائر ہو چکی ہیں جن کی سماعت 22جنوری سے متوقع ہے۔ آسام کے ارکان اسمبلی کی جانب سے بھی ترمیمی قانون کیخلاف احتجاج کیا گیا ہے۔شہریت ترمیمی قانون کیخلاف ظلم و جبر کے باوجود شہر شہر مظاہرے تھم نہ سکے۔بھارت کے صوبہ تلنگانہ کے ضلع عادل آباد کے شہر بھینسہ میں حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے۔ عادل آباد کے مسلم اقلیتی علاقہ میں قتل و خون کا بازار گرم ہوگیا۔علاقے میں مسلمان کسی اجتماع میں شریک تھے کہ ہندو انتہا پسندوں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر مسجد پر دھاوا بول دیا۔ مسجد پرپتھرائو کیا اورموذن کو تشدد کا نشانہ بنایا۔اور مسلمانوں کے گھروں کو جلا دیاگیاجس میں تقریباً 35 گھروں کے جلنے کی خبر آئی ہے۔پورا شہر فوجی چھاونی میں تبدیل ہو چکا ہے۔
آسام میں ہونے والے مظاہروں کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ یہاں کے لوگوں میں یہ خوف پوشیدہ ہے کہ اگر پڑوس کے ممالک سے آنے والے ہندوؤں کو شہریت دے دی جاتی ہے تو آسام کے اصل باشندے اقلیت میں آ جائیں گے۔ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی بنگالی بولنے والی آبادی کو یہاں رکھا جائے۔آسام میں جو این آر سی لایا گیا وہ 1985 میں وزیر اعظم راجیو گاندھی اور آل آسام طلبہ تنظیم کے درمیان معاہدے کا نتیجہ تھا۔ اب جب اس کے غیر متوقع نتائج سامنے آئے ہیں جس میں مسلم تارکین وطن سے زیادہ غیر قانونی ہندو تارکین وطن نکلے تو اب یہ ان کے لیے پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔ یہ اب مذہب کی بنیاد پر احتجاج نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ جو بھی غیر قانونی تارکین وطن ہے اسے بلا تفریق مذہب و ملت آسام سے نکالا جائے۔ جامعہ ملیہ کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ جس طرح سے شہریت کی تعریف کی جا رہی ہے اس کی رو سے بھارت کا جو تصور ہے اس کی بنیاد ہی ختم ہوتی جا رہی ہے۔مثال کے طور پر وی دی پیپل آف انڈیا (ہم انڈیا کے شہری) میں اب مسلمان 'دی پیپل آف انڈیا‘ کا باوقار حصہ نہیں ہیں۔ اس کا دوسرا حصہ جو پوشیدہ ہے اور وہ شہریت ہے اس میں بنیادی طور پر تبدیلی آ گئی ہے وہ عوام سے ہٹ کر مذہب پر لائی گئی ہے اور ایک نئے طرح کا بائنری (دہرا پن) لایا گیا ہے جس میں اسلام بمقابلہ دیگر مذاہب کر دیا گیا ہے۔ اس کا فطری نتیجہ یہ ہو گا کہ اسلام کے ماننے والے ایک طرح کی علیحدگی کا شکار ہو جائیں گے۔اس بل کی منظوری کے بعد اب مسلمان یہاں کے شہری نہیں بلکہ سبجیکٹ ہوں گے اور ایسے میں بھارتی آئین اور قوانین میں جو شہریوں کو حقوق حاصل ہیں وہ انھیں حاصل نہیں ہوں گے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس متنازع شہریت بل کو فرقہ وارانہ اور مسلم مخالف قرار دیا ہے۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم یو این ایچ آر کا کہنا ہے ’ہمیں تشویش ہے کہ بھارت کا نیا شہریت کا ترمیمی قانون بنیادی طور پر امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ نیا قانون افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو جبر سے بچانے کے لیے شہریت دینے کی بات کرتا ہے، لیکن یہ سہولت مسلمانوں کو نہیں دیتا ہے۔تمام تارکین وطن، خواہ ان کے حالات کیسے بھی ہوں، انھیں عزت و وقار، سلامتی اور انسانی حقوق کے حصول کا حق ہے۔امریکی سفیر نے شہریت کے ترمیمی بل کے نتائج پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں امید ہے کہ حکومت ہند مذہبی آزادی کے ساتھ اپنے آئینی عہد کی پابندی کرے گی۔ امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی نے متنازع شہریت ترمیمی بل لانے پر بھارتی وزیرداخلہ امیت شاہ پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے بل کی منظوری پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بل کو غلط سمت میں خطرناک موڑ قرار دیا ہے۔مودی سرکار کے خطرناک کھیل سے پورے خطے کا امن متاثر ہو رہا ہے جس پر بھارت کے اندر سے علم بغاوت بلند ہورہا ہے۔ پہلے مقبوضہ کشمیر میں ایسا ہوا لیکن ہندوستان نے کمیونیکیشن بلیک آؤٹ سے اس آواز کو دبائے رکھا۔ شہریت کے متنازعہ قانون پر بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد کی تنقید کو اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے دیا، نئی دہلی میں سفیر کو طلب کرکے احتجاج کیا گیا۔ دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں بھارت کے لوگوں نے جن میں ہندو، سکھ، مسلمان سب شامل ہیں‘ احتجاجی مظاہرے کیے۔ کینیڈا، امریکہ، شکاگو میں اور یورپ کے دیگر ممالک میں احتجاج ہو رہا ہے۔بھارت خود کو سیکولر ملک کہتا ہے لیکن وہ مسلمانوں کی شہریت چھیننے کا اقدام کر رہا ہے۔یہ امتیازی سلوک ہے۔ او آئی سی نے بھی بھارت میں مسلمانوں کی صورتحال پر اظہار تشویش کیا ہے۔ بھارت کو اقوام متحدہ کے وضع کردہ انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے اقلیتوں کو ان کے حقوق بنا امتیازی سلوک کے دینا ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے برعکس اقدامات سے کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بھارت میں کشیدگی سے خطے کے امن کو سنگین خطرات ہیں۔بھارت بری طرح ہنگاموں کی لپیٹ میں ہے جس پر مودی حکومت کیلئے صورتحال پر قابو پانا ناممکن ہورہا ہے۔ اوپر سے عالمی دبائو الگ ہے۔ایسے حالات میں اپنی فطرت کے مطابق مکار بنیا اپنے عوام اور پوری دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے کبھی ممبئی ،پٹھان کوٹ اْڑی اور پلوامہ جیسے حملوں کا ڈرامہ رچا کر پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا رہا ہے۔اب بھی بعید نہیں وہ ایسا کچھ کردے جس وہ تیاریاں بھی کررہا ہے۔