ضلع مظفرگڑھ ۔ترقیاتی فنڈز سے محروم

لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کیسا ’’نیا پاکستان ‘‘ اور ’’ریاست مدینہ‘‘ ہے کہ جو صرف پی ٹی آئی کو نظر آتا ہے لیکن ہمیں تو نہ آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے نہ دور بین سے اور نہ ہی خوردبین سے۔ اگر نظر آتا بھی ہے تو صرف یہی کہ یہاں کا قانون امیروں کیلئے اور سزا غریبوں کے لئے ہے یہاں کی جیلیں غریب کیلئے عقوبت گاہ اور امیر کیلئے عشرت گاہ ہیں۔ یہاں کی ریاست مدینہ میں چوروں کے ہاتھ کاٹنے اور چوری برآمد کرنے کی بجائے انہیں انسانی ہمدردی کے نام پر پورے شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ دیار غیر فرار کردیا جاتا ہے۔ یہاں امیر کے کتوں کیلئے شاہی طعام و قیام اور غریب کیلئے صرف خودکشی دستیاب ہے۔ یہاں قومی ہیرو کی میت کو گھسیٹ کر پھانسی گھاٹ لیجانے اور تختہ دار پر لٹکانے کی سزا جبکہ قومی خزانہ کی لوٹ مار کی بہتی گنگا میں جوتے سمیت غوطے لگانے والوں کو آزادی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔
عجیب لوگ ہیں جو ’’ریاست مدینہ‘‘ اور ’’ نیا پاکستان‘‘ کو دور بینوں اور خورد بینوں سے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں اور ضلع مظفرگڑھ کو نہیں دیکھتے کہ جہاں بند آنکھوں سے بھی ان کی تجلیاں اور برکات دیکھی جا سکتی ہیں۔ پنجاب بھر میں پسماندہ ترین لیکن پی ٹی آئی ارکان کی سب سے زیادہ تعداد کا حامل یہ ضلع اب وعدوں اور یقین دہانیوں کے بارے میں مکمل طور پر خود کفیل ہے اور ان میں پختہ و سولنگ روڈز‘ یونیورسٹیوں اور کالجوں کا قیام‘ اہم سرکاری محکموں کی اپ گریڈیشن تعلیمی اداروں کی عمارات اور چار دیواریوں کی تعمیر وغیرہ کے علاوہ مظفرگڑھ تا ہیڈ پنجند قاتل روڈ کو دورویہ کرنے کے منصوبے بھی شامل ہیں لیکن ان کی تکمیل کی راہ میں حائل لٹھ بردار گل محمد کو ہٹانا باقی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ ’’زمین جنید‘ زمان جنید‘ مکین جنید مکاں جنید‘ نہ جنید گل محمد‘‘۔ اسی نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ضلع مظفرگڑھ کا ایک دورہ بھی نہیں کرنے دیا اور پورے سات دورے عین موقع پر کینسل ہوتے رہے۔ ان دوروں میں انہوں نے دوسرے ترقیاتی منصوبوں کے اعلان کے علاوہ مظفرگڑھ ‘ میانوالی دو رویہ روڈ اور ترکی ہسپتال کے نئے یونٹ کا افتتاح بھی کرنا تھا۔
2018-2019ء میں پنجاب کو ملک بھر میں سب سے زیادہ فنڈز دیئے گئے اور جنوبی پنجاب کے صرف چار اضلاع‘ ملتان‘ لودھراں‘ بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کو ایک کھرب 6 ارب فراہم کئے گئے کیونکہ ان کے وارث بااثر اور مقرب شاہی تھے اور ضلع مظفرگڑھ کو صرف اس لئے محروم رکھا گیا کہ فنڈز مانگتے وقت یا تو ارکان کے منہ کو تالے لگ جاتے ہیں یا وزیراعلیٰ اپنا کان بندکر لیتے ہیں اور اب بھی وزیراعلیٰ 55 ارب کے فنڈز اپنے آبائی ضلع ڈیرہ غازی خان لے گئے ہیں راستہ میں مظفرگڑھ ان کو دکھائی ہی نہیں دیا یہ صورتحال کچھ ایسی ہے کہ ایک شخص تالاب بنانے کا چندہ لینے کسی کنجوس امیر کے پاس گیا جس نے اس کے جذبہ خدمت خلق کو خوب سراہا اور نوکر کو آواز دی کہ ان کو تالاب کیلئے ’’دو بالٹی پانی دیدو‘‘ ضلع مظفرگڑھ کو آج تک دو بالٹی پانی جتنا بھی فنڈ ملا ہے۔
وزیراعظم عمران خان اگر اب بھی یہاں کے ارکان اسمبلی کے عوام سے کئے ہوئے وعدوں کی بیل منڈھے نہیں چڑھا سکتے تو تسلی رکھیں کہ آئندہ الیکشن میں یہ ارکان جس در پر بھی ’’نیا پاکستان‘‘ اور ریاست مدینہ کے نام پر ووٹ دینے کی صدا لگائیں گے۔ اندر سے ایک ہی آواز آئے گی ’’معاف کرو بابا گھر میں کوئی نہیںہے‘‘۔