کام ‘ کام اور بس کام

مکرمی! قائد نے قوم کے نام تو ’’کام‘ کام اور بس کام‘‘ کا پیغام چھوڑا۔ قوم نے اسے بدل کر اپنا لیا۔ جن قوموں نے کام کو اپنایا وہ دنیا میں ترقی یافتہ اور باوقار ٹھہریں۔ کام چور اور حرام خور قوم کی زندگی سے ہر طرح کی برکات اٹھ گئیں۔ زندہ اقوام اپنے شاہیر کے اقوال کی روشنی میں چلتی ہیں۔ اقبالؒ نے خودی بلند کرنے کا درس دیا۔ ہم نے مگر حرام خوری کے بل بوتے پر خود ہی کو اور اپنے اپنے بنک بیلنسوں کو بلند کرنا شروع کر دیا۔ دیانتداری‘ نیک نیتی‘ فرض شناسی خال خال کہیں ہو تو ہو۔ اکثریت تو ’’یابے ایمانیے تیرا ہی آسرا ہے‘‘ پر عمل پیرا ہے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی میں مصروف کار لوگ کام کرنے نہیں زیادہ سے زیادہ دیہاڑی لگانے آتے ہیں۔ نتیجتاً دو طبقات ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔ ایک وہ جو بے بسی سے پس رہا ہے اور دوسرا وہ جو ظالمانہ طریق سے پیس رہا ہے۔
انصاف کے پلڑے تولنا جھوٹ ذرا نہ بولنا
تھا‘ کس کس کا باپ لینڈ لارڈ؟ غریب کی چھین کے روٹیاں
بنی تھیں یہ کاریں‘ بنی تھیں یہ کوٹھیاں
(محسن امین تارڑ ایڈووکیٹ‘گگھڑ‘ گوجرانوالہ)