اس وقت مجھ سمیت پورے پاکستان کو یہی فکر ہے کہ کیا دانش مہوش کو معاف کر دے گا؟ دانش کس سے شادی کرے گا اور رومی کی ممی کون خوش قسمت خاتون بن سکے گی لیکن کس کو یہ جاننے میں دلچسپی نہیں کہ کیا ماہم شہوار کو معاف کر دے گی؟ اس وقت ڈرامہ کا لکھاری اس لئے قابل تعریف کہ اس نے ہوبہو ہمارے PATRIARCHAL معاشرے کی عکاسی کی ہے ۔ ماہم کا شوہر اسے دھوکہ دیتا ہے لیکن وہ یہ کہہ کر اسے نہیں چھوڑتی کہ ’’تم سے ٹوٹ کر بھی کسی اور مرد سے جڑنا ہے تو تم برے ہو؟‘‘ لیکن دانش اپنی سابقہ بیوی کو قبول نہیں کرتا… چونکہ مرد کو عورت میں صرف عورت نہیں چاہئے… اسے وہ کردار میں مریم‘ حسن میں دیوی‘ کچن میں شیف راحت‘ تسکین میں روح افزا اور ملکیت میں پیر کی جوتی کی طرح چاہئے کہ جب چاہے پہنے اور جب چاہے اتار دے لیکن واہ کمال کہ لکھاری کہتا ہے کہ عورت کو بس ایک مرد چاہئے… یہی وجہ ہے کہ عظیم آنٹیاں اپنے چالیس سال کے بیٹے کیلئے بھی 20سال کی دوشیزہ یہ کہہ کر ڈھونڈتی ہیں کہ مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ ڈرامے کے بعض ڈائیلاگ خوبصورت ہیں لیکن۔
ڈرامہ پر اعتراض محض اس لیے ہے کہ اس میں بارہا اس تصور کو حقیقت کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر مرد کرے تو غلط ہے لیکن عورت کرے تو گناہ ہے بار بار عورت بیوی کی قیمت لگانے کی بات کی گئی ہے۔ عورت کو جس ڈبے میں معاشرے نے کئی سالوں سے بند کیا ہوا ہے اس کی پیکنگ میں ذرا سی بھی دراڑ آ جائے تو اس کو پھینک دو۔ چونکہ عورت یا تو اچھی عورت ہوتی ہے یا کچھ نہیں ہوتی۔ یہی سوچ معاشرے میں نظر نہ آنے والے سانپ کی طرح پھر رہی ہے، ڈس رہی ہے۔ حقیقی زندگی میں کتنی ہی عورتیں جانتے بوجھتے اپنے بے وفا شوہروں کے ساتھ گزارا کر رہی ہیں چونکہ ان کو کہا جاتا ہے کہ ’’ایک بچہ اور ہو جائے پھر سدھر جائے گا۔‘‘ ’’کچھ سال گزر جانے دو۔ گزر جانے دو۔ گزرتی عمر میں تم ہی یاد آئو گی اس کو ‘‘ یا ’’تم اپنا حلیہ شکل بہتر رکھو تو کیوں وہ ادھر ادھر منہ مارے گا‘‘ وغیرہ اور دوسری طرف نئی نویلی دلہنوں کو ان کے شوہر شادی کی پہلی رات ’’پارسا‘‘ ثابت نہ ہونے پر یا سکول کالج جاتی لڑکیوں کو ان کے باپ یا بھائی کسی سے تعلق کے ’’شک‘‘ کی بنیاد پر قتل کر کے فخر سے اپنی تصویر اترواتے ہیں کہ دیکھو آج مجھے غیر مند ہونے کا سرٹیفکیٹ مل گیا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024