فیصل آباد میں ایک معذور شہری گھر واپسی پر15 کلو آٹے کا تھیلا خرید کر لے جا رہا تھا کہ 2 نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے اسے روک کر تشدد کیا اور آٹے کا تھیلا چھین کر فرار ہوگئے۔ پچھلی حکومتوں کو دفع کریں ہم تو تبدیلی سرکار سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے جو افسوس ناک ناکامی سے دوچار ہو چکی ہے۔ پاکستان اور وہ بھی پنجاب میں یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ لوگ ایک دوجے کے منہ سے نوالہ چھین کر بھاگ جائیں اور حکمران عوام کے گھر کی حالت دیکھنے کی بجائے اپنے گھر کے احترام پر بھاشن دے رہے ہیں۔اپنی سوشل میڈیا ٹیم سے فرماتے ہیں کہ سوشل میڈیا کبھی اجازت نہ دیں کسی کو نچلی سطح پر گرنے کی کہ کوئی فیملیز کو نشانہ بنائے۔یہ ہماری روایت میں نہیں ہے۔ بشریٰ بیگم کو جس طرح اٹیک کیا جاتا ہے قابل مذمت ہے البتہ مریم نواز تو خود پبلک میں جاتی ہیں۔ رانا ثنا اللہ گٹر سے نکلا ہے وغیرہ۔ اس قسم کی گفتگو وزیر اعظم اپنی سوشل میڈیا ٹیم سے فرما رہے تھے۔وزیر اعظم صاحب پوری قوم برین واش نہیں ہوئی کہ عورت کے احترام کی تمیز نہ سمجھ سکے۔ بشریٰ بی بی ہو یا مریم نواز بحیثیت عورت سب کا احترام برابر ہے۔ سیاست پر تنقید اور نجی زندگی کی کردار کشی میں فرق ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اتنا گند دیکھنے سننے میں نہیں آیا جو ان دو پارٹیوں کے سوشل میڈیا نے پھیلا دیا ہے۔ آگ جب اپنے گھر تک پہنچ گئی تو تمیز و تہذیب کا وعظ دینے بیٹھ گئے۔ وزیر اعظم اپوزیشن جماعتوں کا بھی وزیر اعظم ہوتا ہے مگر حیرت ہے اپوزیشن کے لئے نفرت و حقارت کے انگارے دہکتے ہیں۔وزیرا عظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا و صحافت مافیا کے قبضے میں ہے، ہم سوشل میڈیا کی بدولت اقتدار میں آئے ہیں، ہمارا مقابلہ مگرمچھوں سے ہے، عوام گھٹیا سیاست کرنے والوں کا منہ بند کریں۔۔۔گھٹیا سیاست کی شروعات کہاں سے ہوئی کب ہوئی اس پر بھی روشنی ڈالنے کی جسارت فرما دیتے۔ اقتدار کے لئے یہی گھٹیا سیاست اور صحافت مافیا کبھی آپ کی آنکھوں کا تارا تھے۔ بیانات خیالات و افکار میں یوٹرن صحتمند سیاست کی علامت سمجھی جاتی ہے لہٰذا قوم اب ایسے واعظ سننے کی عادی ہو چکی ہے۔ اس گھٹیا سیاست میں پاک ہونے کا دعوی آپ بھی نہیں کر سکتے۔حکومت کی کابینہ ماشا اللہ کرپٹ افراد پر مشتمل ہے۔کرپٹ دوست کرپشن کے مال سے سیٹوں کی خریدو فروخت کرتے ہیں۔ بشریٰ بی بی کا سوشل میڈیا میں نام لینا حرام ٹھہرا اور مریم نواز حریف جماعت کے لیڈر کی بیٹی ہے لہٰذا جو چاہو اس کی کردار کشی کرتے رہو ؟ واہ کیا منطق پیش کی ہے۔ محترم وزیر اعظم عورتوں کے احترام میں تقابل و موازنہ جیسی گفتگو کی بجائے عوام کو روٹی دینے کی فکر کریں۔ اب حال یہ ہو گیا ہے کہ عوام ایک وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ریاست مدینہ کی خاک کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ریاست مدینہ جس کے خلیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان تھا کہ " اگر دریا فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو اسکے کے لئے بھی عمرؓ جوابدہ ہو گا ‘‘۔یہ وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جن کے دور میں اسلامی مملکت22 لاکھ مربع میل کے رقبے پر پھیل گئی تھی۔ یہ ملک ایک خانقاہ بن گیا ہے۔ دما دم مست قلندر۔ ایک طرف وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ پاکستانی معیشت استحکام کی جانب گامزن ہے اور دوسری جانب آج پاکستان سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے 46 ارب روپے ڈوب گئے۔آپ کے گھر کا گزارا ہ بھی تنخواہ میں نہیں ہوتا تو خیر ہے آپ کے دوست یار ارب پتی ہیں۔ غریب عوام کا سوچیں ان کا گھر کیسے چل رہا ہے ؟ آپ تو مرشد لوگ ہیں لنگر پر بھی گزارا کر لیں گے سارا ملک لنگر پر نہیں چل سکتا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024