روہنگیا اور کشمیر کے مسلمان!!!!!

روہنگیا مسلمانوں پر آنگ سان سوچی کے مظالم کی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ طاقت اور مسلم دشمنی میں آنگ سان سوچی نے وہ سب کچھ کیا ہے جو عام انسان صرف سوچ ہی سکتا ہے۔ سات لاکھ سے زائد مسلمانوں کو پناہ گزین کیمپوں میں محصور کرنے والی اس ظالم حکمران کے اقدامات کو عالمی عدالت انصاف نے بھی نسل کشی قرار دیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے سترہ رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا ہے کہ عدالت انصاف روہنگیا مسلمانوں کی مبینہ نسل کشی کے خلاف مقدمہ سننے کی مجاز ہے۔ اس سے قبل میانمار کی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ اس مقدمے کو اس فورم پر نہ سنا جائے۔ ظالم آنگ سان سوچی نے یہ بھی کہا ہے کہ میانمار میں ہونے والی تفتیش کے بعد یہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اس معاملے میں کوئی بین الاقوامی مداخلت ہونی چاہیے۔ عالمی عدالت انصاف نے مدعی ملک گیمبیا کو مقدمے کی کارروائی آگے بڑھانے کی اجازت بھی دی ہے۔ مغربی افریقہ کے مسلمان ملک گیمبیا نے گذشتہ برس نومبر میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف رجوع کیا تھا۔ عالمی عدالت انصاف نے کہا ہے کہ میانمار نسل کشی کے متعلق انیس سو اڑتالیس کے آرٹیکل دو کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھائے جس کے تحت کسی بھی مخصوص نسل یا گروہ کے لوگ قتل نہ ہوں اور نہ ہی کسی کو ذہنی و جسمانی نقصان پہنچایا جا سکے۔ میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے عدالت میں غیر متناسب فوجی قوت کے استعمال میں چند سویلین کی ہلاکت کا اقرار کرتے ہوئے اس اقدام کو نسل کشی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ عدالت نے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کو روکنے انہیں محفوظ بنانے اور اس حوالے سے ابتک ہونے واکے واقعات کے شواہد کو بھی محفوظ بنانے کے لیے کہا ہے۔ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کو بھی خدشہ ہے میانمار میں دوبارہ نسل کشی کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تفتیش کار سمجھتے ہیں کہ میانمار کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف یہ کارروائی نسل کشی کی نیت سے ہی کی گئی تھی۔
دوہزار سترہ سے سات لاکھ سے زائد روہنگیائی مسلمان فوجی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں میانمار سے نکل کر بنگلہ دیش میں پناہ گزین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔ میانمار کے ایک تفتیشی پینل نے یہ اعتراف تو کیا کہ فوج نے کچھ جرائم کا ارتکاب کیا ہو لیکن اس سطح پر بھی اسے نسل کشی تسلیم کرنے سے انکار ہی کیا گیا ہے۔ اس کیس میں گیمبیا کے وزیر قانون ابوبکر تمباڈو کا کردار سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ ابوبکر تمباڈو ہی کی کوششوں سے ظالم اور مسلم دشمن آنگ سان سوچی کو عالمی عدالت میں پیش ہو کر نسل کشی کی تردید کرنا پڑی تھی تاہم انکی تردید کے باوجود عالمی عدالت انصاف نے میانمار کے اقدامات کو مسلمانوں نسل کشی قرار دیتے ہوئے گیمبیا کی درخواست پر ہنگامی اقدامات اٹھائے جانے پر کارروائی کی ہے۔
میانمار میں افواج نے مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم شروع کی تھی۔ وہ مسلمانوں کے مکانات کو آگ لگاتے، عورتوں کے ساتھ ہر طرح کی جنسی زیادتیوں میں ملوث تھے۔ وہاں بچوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات عام تھے۔ مسلمان مردوں کو اجتماعی طور پر قتل کرنے سمیت نسل کشی کی تمام بنیادی نشانیاں نظر آتی ہیں۔ ان ظالمانہ اقدامات کے واضح شواہد اور ثبوت ہونے کے باوجود آنگ سان سوچی نے مسلمانوں کی نسل کشی کی تردید کی اور اسے مسلمان شدت پسندوں کی جانب سے حملوں پر فوجی ردعمل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ابوبکر تمباڈو اس کیس کے حقیقی ہیرو ہیں جنہوں نے روہنگیائی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر بہترین انداز میں کام کرتے ہوئے اس کیس کو عالمی عدالت انصاف تک لے کر گئے۔
میانمار میں ہونے والے مظالم بھی سوئے ہوئے مسلم امہ کے ضمیر کو جگانے میں ناکام رہے ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کو اس قسم کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے امت کی طرف سے کوئی ٹھوس اور اتحاد کا پیغام نہیں جاتا۔ مسلمان کٹتے مرتے رہتے ہیں، انہیں جلایا جاتا ہے، خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے، بچوں کو نذر آتش کیا جاتا ہے، قتل کیا جاتا ہے لیکن کوئی آواز نہیں اٹھاتا اسی اجتماعی بے حسی کا نتیجہ ہے کشمیر کے مسلمان بھی پانچ اگست سے اب تک کرفیو اور لاک ڈاون کا شکار ہیں۔ ظالم بھارتی افواج نے مقبوضہ وادی میں رابطے کے ذرائع منقطع کر رکھے ہیں۔ معلومات کے ذرائع بھی بند ہیں۔ اسی لاکھ سے زائد مسلمان قیدیوں سے بھی بدتر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں لیکن امت مسلمہ کو کوئی خبر نہیں ہے۔ ہماری طرف سے بھی بیانات کی حد تک مذمت و مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو بھارت کے تعلقات ٹھیک نہ ہونے کا دکھ بھی کھائے جا رہا ہے وہ کہتے ہیں دونوں ممالک کے مابین تعلقات ٹھیک ہوں تو تجارت شروع ہو گی شاید وہ یہ بھول چکے ہیں کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اس نے ہماری شہ رگ پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ پاکستان کے وجود سے بھی انکاری ہے۔ اس کے ساتھ کبھی کوئی تجارت کا منصوبہ کامیاب ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ ہندوتوا کے منصوبے پر عمل کرنے کی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ تجارت کی باتیں کرنے کے بجائے اپنی شہ رگ کو
آزاد کرانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امام صحافت مجید نظامی مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کے معاملے میں ہم جنگ تک جاتے ہیں۔ ہندو بنیا کبھی باز نہیں آئے گا اور اس دور میں بھارت میں بی جے پی کی حکومت نے یہ ثابت کیا ہے کہ مجید نظامی مرحوم کا موقف سو فیصد درست تھا۔
روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے بھی سوالیہ نشان ہیں کب تک مسلمانوں کو بچوں کو آگ میں جلایا جاتا رہے گا، کب تک ان کی خواتین کی عصمت دری ہوتی رہے گی اور کب تک مسلم دنیا کے حکمران مالی مفادات کی وجہ سے ایسے مظالم پر آنکھیں بند کیے رکھیں گے۔