ہر عالمی اور علاقائی فورم پر بھارتی عزائم بے نقاب کرنا ہی ہماری بہترین حکمت عملی ہے
بھارتی ہٹ دھرمی ! کرتارپور راہداری پر مذاکرات کیلئے بھی اپنا وفد پاکستان بھجوانے سے انکار
بھارت کی طرف سے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرتارپور راہداری کے سلسلہ میں مذاکرات کیلئے پاکستان آنے سے انکار کردیا گیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے گزشتہ ہفتے بھارت کو باضابطہ دعوت دی گئی تھی کہ وہ کرتارپور راہداری پر بات چیت کیلئے اپنا وفد پاکستان بھجوا دے جس کا گزشتہ روز دفتر خارجہ پاکستان کو جواب موصول ہوگیا۔ اس سلسلہ میں بھارت کی جانب سے بھجوائے گئے جوابی مراسلہ میں پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ کرتارپور تفصیلات کیلئے پاکستانی وفد نئی دہلی بھجوادے۔ اس کیلئے پاکستان کو دورے کی دو مجوزہ تاریخیں بھی دی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ پاکستانی وفد آئندہ ماہ 26 فروری یا 7 مارچ کو نئی دہلی بھجوا سکتا ہے۔ دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق اس امر کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان کرینگے کہ پاکستان اپنا وفد نئی دہلی بھجوایا جائے یا نہیں۔
دوسری جانب بھارت جنوبی ایشیاء میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے فرانس سے ایک ہزار کروڑ روپے مالیت کے تین ہزار سے زائد میلان ٹی۔2 ٹینک شکن گائیڈڈ میزائل خریدنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی وزارت دفاع کے اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس میں دوسری جنریشن کے میلان 2-T ٹینک شکن گائیڈڈ میزائل خریدنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائیگا۔ بھارتی خبررساں ایجنسی ایشین نیوز انٹرنیشنل نے بھی اسکی تصدیق کی اور اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایا کہ بھارت یہ میزائل فرانس کی ایک کمپنی کے تعاون سے تیار کرارہا ہے۔ بھارتی وزارت دفاع کے مطابق بھارتی فوج کو تیسری جنریشن کے 70 ہزار سے زائد میزائل شکن گائیڈڈ میزائلوں کی ضرورت ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی سطح کے مذاکرات کے سلسلہ میں جتنی بدعہدیاں بھارت کی جانب سے کی گئی ہیں‘ اسکی دنیا میں کہیں بھی کوئی مثال موجود نہیں۔ بھارت نہ صرف مذاکرات کی اپنی کسی بھی پیشکش سے رجوع کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا بلکہ وہ ایسی ہر پیشکش کے بعد پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بھی انتہاء کو پہنچا دیتا ہے اور پھر پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے وہ دنیا بھر سے اسلحہ کی خریداری اور جنگی‘ دفاعی تعاون کے معاہدے بھی کرتا نظر آتا ہے۔ اسکے برعکس پاکستان نے نہ صرف یہ کہ بھارت کی مذاکرات کی کسی پیشکش کو کبھی رد نہیں کیا بلکہ خود بھی کشمیر سمیت ہر ایشو پر بھارت سے مذاکرات کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ یہ درست ہے کہ طاقت کا استعمال اور جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی اسکی رکن ریاستوں پر پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول کی بنیاد پر کسی بھی باہمی تنازعہ کے مذاکرات کے ذریعہ حل پر ہی زور دیا گیا ہے مگر بھارت نے سوائے ہٹ دھرمی کے‘ اور کوئی اصول کبھی اختیار نہیں کیا۔ اسی ہٹ دھرمی کے باعث اس نے تقسیم ہند کے موقع پر پاکستان کی تشکیل کو بادل نخواستہ قبول کرنے کے باوجود اسکی آزادی اور خودمختاری کیخلاف سازشوں کے جال پھیلانا شروع کردیئے‘ کشمیر پر اپنا تسلط جمایا اور پھر اس پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کی بنیاد رکھ دی۔
اسی بھارتی جنونیت نے اسے آج تک چین سے نہیں بیٹھنے دیا اور اس خطہ میں اس نے پاکستان کے ساتھ دشمنی کا راستہ اختیار کرکے خطے کے امن و سلامتی کو دائو پر لگایا اور پھر اپنے سارے وسائل جنگی جنون میں جھونک کر اپنی اور ہماری ترقی و خوشحالی کی راہیں مسدود کردیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے طور پر قبول کرکے ایک اچھے ہمسائے کی طرح اسکے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرلیتا تو نہ صرف یہ دونوں ممالک باہمی تعاون اور برادرانہ مراسم کی بنیاد پر اپنے عوام کی امن و سکون والی خوشحال زندگی کی ضمانت فراہم کرچکے ہوتے بلکہ اس پورے خطے کو بھی ترقی و استحکام سے ہمکنار کرکے ترقی یافتہ معاشرے والااقوام عالم میں نمایاں مقام بھی حاصل کرچکے ہوتے مگر پاکستان اور اسلام دشمنی ہندو بنیاء کی سرشت میں شامل ہونے کے باعث اسکے ہاتھوں امن و اخوت کے جذبے کے فروغ کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔ اگر اکھنڈ بھارت والے ہندو معاشرے کے غلبہ کے داعی ہندو لیڈران کو خطے کی امن و سلامتی مقصود ہوتی تو وہ مسلم اکثریت والی خودمختار ریاست جموں و کشمیر پر بھی تقسیم ہند کا فارمولا لاگو کرکے اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق قبول کرلیتے۔ اس طرح تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کے بعد پاکستان بھارت کسی تنازعہ کی کبھی نوبت ہی نہ آتی اور آج ہمارا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شمار ہوتا مگر بھارت نے پاکستان کے ساتھ نہ صرف تنازعہ کشمیر کی خود بنیاد رکھی بلکہ اس تنازعہ کو اقوام متحدہ میں لے جانے کے باوجود اس پر یواین قراردادیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس طرح اس نے پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ پر استوار یواین چارٹر کو بھی روند ڈالا۔ چنانچہ اسکے توسیع پسندانہ عزائم سے ہی پاکستان اور بھارت میں تین جنگوں کی نوبت آئی مگر پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد بھی بھارتی جنونیت کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی اور اس نے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی بھی ٹھان لی۔
اس مقصد کے تحت اس نے سب سے پہلے کشمیر پر یواین قراردادیں غیرمؤثر بنانے کیلئے پاکستان کو شملہ معاہدہ کے ذریعہ ہر باہمی تنازعہ کے حل کیلئے صرف دوطرفہ مذاکرات کا پابند کیا جو اسکی ایک گہری چال تھی۔ اس معاہدہ کی بنیاد پر ہی بھارت اقوام متحدہ اور سارک سربراہی کانفرنس سمیت کسی بھی عالمی اور علاقائی فورم پر مسئلہ کشمیر کا تذکرہ نہیں ہونے دیتا اور پاکستان کی جانب سے کشمیری عوام کیلئے آواز اٹھانے پر اسکی مخالفت پر کمربستہ ہو جاتا ہے اور اپنے تمام وسائل پاکستان دشمنی کی آگ بھڑکانے میں جھونک دیتا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ کشمیر کے تنازعہ نے ہی پاکستان اور بھارت کے مابین پانی کے تنازعہ کی بنیاد رکھی اور اس تنازعہ کا آغاز بھی بھارت نے پاکستان کی جانب آنیوالے پانی کو روک کر اور اس مقصد کیلئے دریائے چناب‘ نیلم‘ جہلم پر سندھ طاس معاہدے کی روح کے منافی بے شمار چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرکے کیا۔ آج اس تنازعہ کو بھی گھمبیر بنا کر بھارت پاکستان کیخلاف ننگی جارحیت اور ہٹ دھرمی پر اترا ہوا ہے جو اقوام متحدہ کی طرح عالمی بنک اور عالمی عدالت انصاف کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور پاکستان کیخلاف مسلسل آبی دہشت گردی کا بھی ارتکاب کررہا ہے۔ آج اس حقیقت سے پوری عالمی برادری مکمل آگاہ ہی نہیں‘ پوری طرح قائل بھی ہے کہ بھارت نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے ہی اسکے ساتھ تنازعات شروع کئے اور بڑھائے ہیں اور پھر وہ ان تنازعات کے حل کیلئے دوطرفہ مذاکرات کی بنیاد رکھنے والے شملہ معاہدہ کی بھی پاسداری نہیں کرتا اور کسی نہ کسی حیلے بہانے سے دوطرفہ مذاکرات کی ہر میز خود ہی رعونت کے ساتھ الٹا دیتا ہے۔ بھارت کی موجودہ مودی سرکار کا تو اس معاملہ میں ٹریک ریکارڈ انتہائی خراب ہے جس کا پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنا ایک ایجنڈہ ہے اور شومئی قسمت کہ اس ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اسے امریکی سرپرستی بھی حاصل ہوگئی ہے چنانچہ مودی سرکارپاکستان کے ساتھ نہ صرف سلسلۂ جنبانی شروع کرنے کیلئے خود پیشرفت نہیں کرتی بلکہ پاکستان کی مذاکرات کی ہر پیشکش کو بھی اسکی جانب سے رعونت کے ساتھ ٹھکرادیا جاتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بے شک نیک نیتی‘ خلوص اور سازگار تعلقات کے احیاء کے جذبے کے تحت نریندر مودی کے رسمی تہنیتی پیغام پر انہیں کشمیر سمیت ہر مسئلہ پر دوطرفہ مذاکرات کی پیشکش کی اور بھارت کے ایک قدم بڑھانے کی صورت میں پاکستان کی جانب سے دو قدم بڑھانے کا اعلان کیا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پاکستان بھارت وزرائے خارجہ کی نیویارک میں باضابطہ ملاقات کی تجویز پیش کی جو مودی سرکار نے قبول تو کرلی مگر عین موقع پر بھارت اس ملاقات سے بھی منحرف ہوگیا اور پاکستان کے ساتھ کشیدگی انتہاء کو پہنچا دی۔ دوطرفہ سازگار تعلقات کیلئے پاکستان کی نیک نیتی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ بھارتی سکھوں کو سہولتیں فراہم کرنے کیلئے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کرتارپور راہداری کھولنے کا اعلان کیا جس کی وزیراعظم عمران خان نے توثیق کی اور اسکے افتتاح کی تقریب میں شرکت کیلئے بھارتی وزیر خارجہ اور بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کو باضابطہ طور پر مدعو کیا گیا مگر انہوں نے یہ دعوت قبول کرنے کے بعد نہ صرف توہین آمیز انداز میں پاکستان آنے سے معذرت کی بلکہ اس پر بے سروپا الزامات کی بھی بوچھاڑ کردی۔ اس سے قبل بھارت کی جانب سے پاکستانی آبی ماہرین کے دریائے چناب پر متنازعہ بھارتی آبی ڈیمز کے معائنہ کی دوبار تاریخیں طے کرکے اس سے انحراف کیا گیا مگر پاکستان کی جانب سے اسکے باوجود بھارت کے ساتھ کشمیر اور ڈیمز کے تنازعہ پر کسی بھی سطح کے مذاکرات کیلئے ہمہ وقت آمادگی کا ہی اظہار کیا جاتا رہا ہے جبکہ پاکستان کی اس خیرسگالی کا جواب مودی سرکار کی جانب سے کنٹرول لائن پر کشیدگی بڑھا کر اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام پر ظلم و جبر کے نئے ہتھکنڈے اختیار کرکے دیا جاتا ہے۔ بھارتی لوک سبھا کے انتخابات سے پہلے پہلے مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام کا جتنا خون بہا چکی ہے وہ حق خودارادیت کی کسی تحریک کو بزور کچلنے کی دنیا بھر میں بری ترین مثال ہے جبکہ گزشتہ دو ماہ سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے ہاتھوں تین چار کشمیریوں کی شہادتیں ہورہی ہیں۔ گزشتہ روز بھی بھارتی فوجوں نے جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں میں تین کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ اپنے پیاروں کی آئے روز کی شہادتوں کیخلاف کشمیری عوام نے بھارت کے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔
ان بھارتی ہٹ دھرمیوں اور مظالم کے پیش نظر یہ ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ بالخصوص تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے خلوص نیت کے ساتھ پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ ہوگا۔ اگر وہ اپنے متنازعہ ڈیمز کے معائنہ سے بھی پاکستانی آبی ماہرین کو بھارت آنے سے باربار روک رہا ہے اور کرتارپور راہداری کے معاملہ پر بھی وہ ہٹ دھرمی برقرار رکھتے ہوئے اپنا وفد مذاکرات کیلئے پاکستان بھجوانے سے انکار کررہا ہے تو ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اپنی آزادی‘ خودمختاری اور قومی مفادات کو بہرصورت پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ہماری یہی بہترین حکمت عملی ہوگی کہ بھارتی عزائم کو ہر عالمی اور علاقائی فورم پر بے نقاب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور اس کیلئے تمام ممکنہ سفارتی کوششیں بروئے کار لائی جائیں۔ بھارت کے ساتھ کسی بھی ایشو پر مذاکرات کیلئے ہماری ہمہ وقت آمادگی سے بھی یقیناً ہماری جانب سے دنیا کو مثبت پیغام ہی جائیگا اور عالمی قیادتوں کیلئے ہمارے ساتھ مذاکرات کے معاملہ میں بھارت پر دبائو بڑھانے کا بھی جواز نکلتا رہے گا۔