امریکہ ایک سے ایک نئی آفت کا شکار ہورہا ہے۔ برفانی طوفانوں نے زندگی اور اس کے معمولات درہم برہم کررکھے ہیں تو دوسری طرف صدرٹرمپ کی نت نئی حرکتیں امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ناک میں دم کئے ہوئے ہیں۔ حکومتی شٹ ڈاون الگ مصیبت ہے لیکن امریکی محکمہ خارجہ، دفاعی مرکز پینٹاگون اور دیگر خفیہ ادارے روسی صدر پیوٹن سے ٹرمپ کے خفیہ مراسم پر سر پکڑے بیٹھے ہیں اور ہر گزرنے دن کے ساتھ کھوج لگانے کی مصروف عمل ہیں کہ آخر دونوں کے بیچ کیا چل رہا ہے؟
امریکی ذرائع ابلاغ میں ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ بھانت بھانت کے تجزیہ نگاروں کی تان اسی پر ٹوٹ رہی ہے کہ صدر ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب کے درمیان رازدرانہ گفتگو کن امور پر ہورہی ہے۔ دو عالمی طاقتیں جو ماضی میں ایک دوسرے کی جانی دشمن تصور ہوتی آئی ہیں، ان کے درمیان ’’چھتیس کا آنکڑہ‘‘ رہا ہے، ان کے صدور کی یوں سرعام رازونیاز اور باہمی ملاقاتیں کیونکر ممکن ہوئیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر شک اس لئے بھی بڑھ گیا ہے کہ ان کے قصر ابیض پہنچنے میں روسی خفیہ ہاتھ کا الزام موجود ہے اور اب جس طرح ٹرمپ تن تنہاء روسی صدر سے رازونیاز کررہے ہیں، اس پر امریکی خفیہ اداروں اور متعلقہ محکموں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔ تازہ واقعے نے تو امریکی انتظامیہ کو بالکل ہی بوکھلا دیا ہے۔ کہاجارہا ہے کہ امریکی صدر نے روسی ہم منصب سے ہونے والی گفتگو کے جومندرجات اپنی کاپی پر تحریر کئے تھے، ٹرمپ نے ملاقات ختم ہوتے ہی مترجم سے وہ بھی لے لئے۔ ایسا کیوں کیاگیا؟ ایسی کیا رازداری تھی؟ وہ گفتگو جو دونوں میں ہوئی کن امور پر تھی؟ یہ جاننے کے لئے پوری امریکی انتظامیہ مرے جارہی ہے اور امریکہ کے اندر ایک نئی کشمکش شروع ہوگئی ہے۔
امریکی اخبارات باضابطہ چسکے لے لے کر پوری کہانی شائع کررہے ہیں۔ ’’روسی صدر ولاد میر پیوٹن اور امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کی جرمنی میں جیسے ہی ملاقات ختم ہوئی تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ملاقات میں موجود مترجم سے اس کے نوٹس لے لئے اور اس سے کہاکہ وہ کسی کو اس بارے میں کچھ نہ بتائے۔ اسی رات جب عشائیہ میں ڈونلڈٹرمپ شرکت کے لئے آئے تو انہوں نے کرسی کھینچ کر روسی صدر کے قریب کرلی اور کسی اور امریکی اہلکار کی غیرموجودگی میں ولاد میر پیوٹن سے محفوگفتگو رہے۔‘‘
کہاجارہا ہے کہ اب تک روسی اور امریکی صدر میں ایسی پانچ ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ جو انہوں نے عمومی طے شدہ ضابطوں اور سرکاری قرینوں سے ہٹ کر کی ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے روسی صدر کے چوتھی مرتبہ کامیاب ہونے پر ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کرنے سے منع کیاتھا لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور اپنی ہٹ پر کاربند رہے اور ولاد میرپیوٹن کو مبارکباد کا فون کیا۔ امریکی انتظامیہ کا موقف تھا کہ ولاد میرپیوٹن نے چوتھی مرتبہ صدر بننے کے لئے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے لہذا امریکی صدر کے لئے انہیں فون کرکے مبارکباد دینا امریکی مفاد میں نہیں ہوگا۔
ان کی تیسری ملاقات ویتنام میں ہوئی جب صدر ٹرمپ نے ان سے یہ کہلوانے کی کوشش کی کہ امریکی صدارتی انتخابات میں روس نے مداخلت نہیں کی۔ فن لینڈ کے شہر ہیلسنکی میں منعقدہ سمٹ میں دونوں رہنمائو ں نے مترجمین کے سوا سب کو کمرے سے نکال دیا۔ حال ہی میں ارجنٹائن کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر ’بیونس آئیرس‘ میں ہونے والی ملاقات میں دونوں نے تبادلہ خیال کیا۔ یہ ان کے اس بیان کے بعد ہونے والی ملاقات تھی جس میں انہوں نے کہاتھا کہ ’روسی جارحیت کی وجہ سے ان کی ملاقات نہیں ہوگی۔
ٹرمپ اس بات پر بضد ہیں کہ 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں روس سے کوئی ساز باز نہیں تھی۔ لیکن پانچوں بار صدر پیوٹن سے ملاقات کے نتیجے میں ان کے تعلقات کے بارے میں شکوک وشبہات میں مزیداورمسلسل اضافہ ہوا۔جس رازداری سے ان ملاقاتوں کا اہتمام ہوا ہے اس کی بنائ پر امریکی انتظامیہ کے اندر بھی لوگ اندازے لگانے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان ملاقاتوں میں کیا گفتگو ہوئی۔ پوری دنیا اور امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کا سراغ لگانے والے تحقیق کاربھی ان ملاقاتوں کی تفصیل جاننے کو بے چین ہیں۔
امریکی صدر بل کلنٹن کے روس کے لئے سابق مشیر انڈریو ایس ویس کے مطابق تجسس کی بات یہ ہے کہ آخر دونوں کے درمیان ہونے والی ملاقات کو اپنی ٹیم سے چھپانے کی منطق کیا ہے ؟ ٹرمپ محکمہ خارجہ اور وائٹ ہائوس حکام کی ٹیم کو اس گفتگو سے لاعلم کیوں رکھنا چاہتے تھے؟ یہ محض ملک کے مفاد کے ہی خلاف نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مسائل پیدا کرنے کا سبب ہے۔ ملاقات سے پیدا ہونے والی پراسراریت نے وکیل خصوصی ایس ملر سوئم کی توجہ بھی حاصل کرلی ہے جو روس اور امریکہ کے صدر کے درمیان تعلقات کی تحقیق کررہے ہیں۔
کانگریس میں اس پر ایک نیا شور مچ گیا ہے جہاں ڈیموکریٹس اس کوشش میں ہیں کہ صدر ٹرمپ کے مترجم کو عدالتی نوٹس بھیجا جائے کہ وہ آکر امریکی اور روسی صدر کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ امریکی انتظامیہ کے سینئر ارکان کا کہنا ہے کہ ماضی میں کسی امریکی صدر یا اہلکار نے اپنے کسی حریف کے ساتھ اس طرح کی ملاقات نہیں کی اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ انہوں نے اپنے مشیروں کو بھی اس سے دور رکھا ہو۔ جب ایسی کوئی ملاقات ہوتی ہے تو کم ازکم ایک معتمد ضرور کمرے میں یا ان کے قریب موجود رہتا ہے۔ یعنی مترجم کے علاوہ بھی ایک ذمہ دار فرد لازماً موجود رہتا ہے جس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ دونوں شخصیات کے درمیان ہونے والی گفتگو کے مندرجات اور نکات کے بارے میں بعدازاں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو اور بالخصوص امریکی موقف کو روسی اپنے رنگ میں رنگ کر پیش نہ کرسکیں اور کوئی غلط فہمی پیدا نہ کرسکیں۔ معتمدین یا مترجمین ملاقات میں ہونے والی گفتگو کے مندرجات اور نکات لکھتے( نوٹس) ہیں ان کو باضابطہ مسودے کی صورت ضبط تحریر میں لایا جاتا ہے تاکہ متعلقہ حکام انہیں پڑھ کر آگاہ اور باخبر رہ سکیں۔
سابق خاتون اول و وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اور ڈک چینی کے ساتھ کام کرنے والی سفارتکار وکٹوریا جے نولینڈ کا کہنا ہے کہ میں نے پانچ صدور کے ساتھ کام کیا ہے جن میں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں شامل ہیں اور وہ تمام نوٹس کے ہر ہر حرف کوقلمبند کراتے تاکہ امریکی ساکھ برقرار رہے اور امریکہ کی طرف سے کی گئی گفتگو کی صحت میں روسی یا سویت کوئی ردوبدل نہ کرسکیں۔
امریکی خارجہ تعلقات کونسل کے صدر اور چار سابق صدور کے مشیر رہنے والے رچرڈ این ہاس نے برجستہ تبصرہ کیا کہ صرف ٹرمپ ہی ایسا کرسکتے ہیں کہ ملاقات میں کسی کو نہ بٹھائیں اور اس طرح کی حفاظت نہ چاہیں۔ امریکی صدر نے ایسا کرکے اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے کہ دال میں کچھ تو ضرور کالا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی بھی اْن کے دفاع میں کچھ دلائل گھڑ لائے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ روایتی صدر نہیں۔ بعض اوقات ان سے غیرروایتی اقدامات سرزد ہوجاتے ہیں لیکن اس سے ان کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ ان کی میکسیکو اور آسٹریلیا کے قائدین سے ہونے والی ٹیلی فون گفتگو اخبار میں شائع ہوئی جس کے بعد ان کا محتاط ہونا لازم ہے۔
فارن پالیسی کے ماہر لیوک کوفے نے کہاکہ وہ امریکی صدر کے روئیے پر مایوس ہوئے ہیں۔ انہوںنے یوکرائن کو اسلحہ بھجوانے، اضافی پابندیوں، روسی جارحیت روکنے کے لئے پنٹاگون کے اخراجات بڑھانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ سب اس امر کا ثبوت ہے کہ صدر ریگن کے بعد سے روس کے خلاف یہ سب سے سخت ترین انتظامیہ ہے۔ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمز بی کومے کو 2007ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدے سے ہٹایاتو ان کے جاتے ہی بیورو نے کائونٹر انٹیلی جنس نے تفتیش شروع کردی تھی کہ کیا صدر امریکہ روسی اشارے پر تو کام نہیں کررہے تھے۔ کہاجارہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ روسی ہم منصب سے ہونے والی بات چیت چھپانے میں خاصی حد تک آگے بڑھ گئے ہیں۔
وائٹ ہائوس ترجمان سارہ ہوکیبی نے بیان میں ان خبروں کو بیہودہ مہم قرار دیتے ہوئے کہاکہ دوسال سے ایسی ہی جعلی خبریں چلاکر روس سے تعلق ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ صدراوبامہ کے برعکس صدر ڈونلڈٹرمپ نے روس کے خلاف سخت رویہ اپنایا ہے۔ نومبر2016ء سے صدر ٹرمپ اپنے روسی ہم منصب سے رابطے میں ہیں اور صدر پیوٹن نے امریکی انتخاب میں کامیابی پر صدر ٹرمپ کو نہ صرف مبارکباد کا ٹیلی گرام بھیجاتھا بلکہ 14نومبر کو فون پر بھی بات کی تھی۔ (جاری)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024