ترجمان پاک فوج کا انتخابی عمل پر ناروا تبصرہ اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا جولائی میں انتخابات کے انعقاد کا عندیہ
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت کا چلنا ضروری ہے‘ جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچتے رہیں تو جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ وقت پر انتخابات الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں‘ آئینی حدود میں انتخابات سے متعلق جو بھی احکامات ملیں گے‘ اس پر عملدرآمد کرینگے۔ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارتی جارحیت کا سرحد پر بھرپور جواب دیا جارہا ہے۔ کوئی مس ایڈونچر ہوگا تو اس کا جواب دینگے اور دیا جاتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد بھارت کے قابو سے باہر ہورہی ہے۔ ایل او سی پر بھارتی جارحیت کا ایک مقصد مسئلہ کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹانا اور دوسرا مقصد دہشت گردی کیخلاف جنگ سے ہماری توجہ ہٹانا ہے۔ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی کا الزام بے بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی جمہوریت کے حامی ہیں جنہوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ آئین اور قانون پر یقین رکھتے ہیں اس لئے وہ سینٹ جانیوالے بھی پہلے آرمی چیف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں استحکام بہت ضروری ہے‘ ہم دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ فوج ہے عوام کی فوج اور عوام کی بہتری کیلئے فوج کو جو کرنا پڑیگا‘ کرینگے۔ جمہوریت کو ہم سے کوئی خطرہ نہیں۔ اللہ نہ کرے وہ وقت آئے کہ آرمی چیف الیکشن کا اعلان کریں۔ آرمی چیف قانون کی پاسداری پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج پروفیشنل فوج ہے‘ ملک میں اندرونی استحکام ہونا نہایت ضروری ہے۔ غیرمستحکم حالات کا دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دشمنانِ ملک و ملت کی سازشوں کے تحت آج وطن عزیز اندرونی و بیرونی طور پر سخت خطرات میں گھرا ہوا ہے اور بطور خاص ملک کی سلامتی کے حوالے سے جو سنگین خطرات ملک کی سرحدوں پر منڈلا رہے ہیں‘ وہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ آئینی طور پر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی ضامن عساکر پاکستان دفاع وطن کیلئے ہمہ وقت مستعد و چوکس رہیں تاکہ کسی بھی بیرونی جارحیت کا فوری‘ بروقت اور منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کو بھی ملک کی سرحدوں پر منڈلانے والے خطرات کا مکمل ادراک ہے اور اسی تناظر میں انہوں نے گزشتہ روز لائن آف کنٹرول کا دورہ کرکے ملک کی سلامتی کیخلاف سازشوں میں مصروف بھارت کو باور کرایا ہے کہ سیزفائر معاہدہ پر پابندی کو ہماری کمزوری نہ سمجھیں۔ ہماری سلامتی کیخلاف کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائیگا۔ اس تناظر میں آج قومی اتحاد و یکجہتی کی خاطر ملک کی تمام سول سیاسی اور عسکری قیادتوں کا ایک صفحے پر آنا ضروری ہے تاکہ مکار دشمن کو ہماری کسی اندرونی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ اس حوالے سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ خود بھی ایک پیشہ ور جرنیل کی حیثیت سے مستعد ہیں اور عساکر پاکستان کے پیشہ ورانہ آئینی فرائض کی ہی وکالت کرتے ہیں جنہوں نے سینٹ کو بریفنگ کے دوران دوٹوک الفاظ میں باور کرادیا تھا کہ عساکر پاکستان نے سول حکومت کے ماتحت ہی اپنی پیشہ ورانہ آئینی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔ وہ آئین اور اسکے تحت قائم جمہوری نظام کی تعمیل کے پابند ہیں جبکہ آئین پاکستان کے تھرڈ شیڈول میں درج افواج پاکستان کے حلف اور آئین کی دفعہ 243 شق 2,1 میں درج عساکر پاکستان کی حدودوقیود انہیں وفاقی حکومت کے ماتحت صرف پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی تک ہی محدود کرتی ہیں۔
اس وقت جبکہ امریکہ‘ بھارت گٹھ جوڑ اور مودی سرکار کی کنٹرول لائن پر جاری اشتعال انگیزیوں سے ملک کی سلامتی کو سخت خطرات لاحق ہیں جو دشمن کی مہم جوئیوں کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے عساکر پاکستان کے ساتھ قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کے متقاضی ہیں جبکہ ملکی اور قومی سلامتی کے تقاضوں کی بنیاد پر سول اور عسکری قیادتوں میں ہم آہنگی کی فضا بھی مستحکم ہورہی ہے تو اس موقع پر ترجمان پاک فوج کی جانب سے امور حکومت و مملکت کی انجام دہی کے معاملہ میں کسی قسم کا بیان دینے کی کوئی ضرورت ہے نہ انکے منصب کا یہ آئینی یا پیشہ ورانہ تقاضا ہے۔ جب آئین نے تمام ریاستی اداروں کے اختیارات اور حدودوقیود متعین کردی ہیں جس کے تناظر میں خود آرمی چیف سول حکومت کی اطاعت کا یقین دلارہے ہیں تو انتخابات کے بروقت انعقاد یا انعقاد کے حوالے سے ترجمان پاک فوج کا بیان دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب آئین پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کا طریقہ کار اور اس سلسلہ میں متعلقہ ادارے کی ذمہ داریوں کا تعین کردیا گیاہے تو انتخابات کا انعقاد بہرصورت آئینی تقاضوں کے تحت حکومت نے الیکشن کمیشن کے ذریعہ کرانا ہے۔ الیکشن کمیشن کو حکومت کی جانب سے انتخابات کا جو شیڈول فراہم کیا جائیگا‘ اس نے اس شیڈول کے مطابق ہی انتخابات کیلئے پولنگ کا انتظام کرنا ہے جبکہ اسمبلیوں کی آئینی میعاد بھی متعین ہے۔ جنہیں مقررہ میعاد سے پہلے تحلیل کرانا مقصود ہو تو اس کیلئے بھی وزیراعظم کی جانب سے بھجوائی گئی ایڈوائس پر ہی صدر مملکت نوٹیفکیشن جاری کرنے کے مجاز ہیں جبکہ الیکشن کمیشن پولنگ کے روز امن و امان کی فضا یقینی بنانے کیلئے اور انتخابی عملہ کیلئے اپنی ضروریات سے حکومت کو ہی آگاہ کریگا جس کی بھجوائی گئی ریکوزیشن کی روشنی میں افواج پاکستان سمیت کسی بھی سکیورٹی ادارے کو ذمہ داری تفویض کی جا سکتی ہے۔ اس تناظر میں انتخابات کے انعقاد میں بنیادی کردار وفاقی حکومت ہی کا ہوتا ہے جو آئین کے تقاضوں کے تحت انتخابات کے انعقاد سے تین ماہ قبل عبوری نگران حکومت کی شکل میں موجود ہوگی جبکہ انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی صرف منتخب جمہوری حکومت ہی مجاز ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی گزشتہ روز اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ انتخابات کب ہونے ہیں‘ یہ بتانا انکی ذمہ داری ہے‘ کسی اور کی نہیں۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ عام انتخابات جولائی 2018ء میں ہونگے جس کا ’’لعنتیوں‘‘ کو خود پتہ چل جائیگا۔ اگر کوئی اس سے قبل صوبائی اسمبلی توڑنا چاہتا ہے تو وہ اس کا شوق پورا کرلے۔ بالفرض محال آئینی تقاضوں کے مطابق انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے حکومت کی نیت ٹھیک نہ ہو تو اسکے محاسبے کیلئے پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے اور اگلے مینڈیٹ کا فیصلہ انتخابات کے ذریعہ بہرصورت عوام نے کرنا ہے۔
اس وقت جبکہ ملک کی سیاسی فضا میں کسی قسم کا ارتعاش بھی موجود نہیں اور ریاستی ادارے اپنے آئینی اختیارات کے ماتحت خوش اسلوبی سے فرائض ادا کررہے ہیں تو ترجمان پاک فوج کو ملک کے انتخابی عمل میں دخل درمعقولات کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور انہیں یہ کیوں باور کرانا پڑا کہ خدا نہ کرے انتخابات کا آرمی چیف اعلان کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں سیاسی استحکام اور جمہوریت کی عملداری کی فضا مستحکم ہوتی نظر آتی ہے تو ڈی جی آئی ایس پی آر کو ٹویٹ پیغام جاری کرکے اور کسی ٹی وی چینل کو انٹرویو دے کر ٹھہرائو میں آئے ہوئے پانی میں پتھر مارنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔ گزشتہ ماہ آرمی چیف کی سینٹ کو بریفنگ کے بعد ملک میں سیاسی استحکام اور سول و عسکری قیادتوں کے ایک صفحے پر آنے کا تاثر پختہ ہوا جس کی وزیر ریلوے خواجہ سعدرفیق نے بھی ستائش کی تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بیان دے کر ملک کی سیاسی فضا میں ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی کہ آرمی چیف کے ایک اشارے پر ساری فوج وہیں دیکھنا شروع ہو جاتی ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ اب آرمی چیف وزیراعظم کے ہمراہ ملک کی سرحدوں کا دورہ کرکے دفاع وطن کیلئے تمام قومی سیاسی عسکری قیادتوں کے باہم یکجہت ہونے کا تاثر پختہ کر رہے ہیں اور اسکے برعکس پی ٹی آئی کے قائد عمران خان اور دوسرے ارکان پارلیمنٹ پر لعنت بھیج کر ملک کی سلامتی کے درپے دشمن کو ملک کے اندر کسی سیاسی انتشار اور عدم استحکام کا عندیہ دے رہے ہیں تو ترجمان پاک فوج ایک مبہم بیان دے کر ملک میں عدم استحکام کی سیاست پر مامور سیاست دانوں کے ایجنڈے کو تقویت پہنچانے کی کیوں کوشش کررہے ہیں جبکہ سیاسی معاملات پر کسی قسم کا تبصرہ انکے منصب کا تقاضا بھی نہیں ہے۔
آج ملک کی سلامتی و خودمختاری کو لاحق اندرونی و بیرونی خطرات تو عساکر پاکستان سے اس امر کے متقاضی ہیں کہ وہ اپنی توجہ صرف دفاع وطن کی ذمہ داریوں پر مرکوز کریں اور خود آرمی چیف بھی افواج پاکستان کی ان آئینی ذمہ داریوں کی ہی وکالت کررہے ہیں اس لئے انکے ماتحت عسکری اداروں کے سربراہان کو بھی خود کو اپنی ہائی کمان کی سوچ کے تابع رکھنا چاہیے اور آئین کے تحت قائم سسٹم کے پھلنے پھولنے میں معاون بننا چاہیے۔ آئین کے تحت انتخابات کا انعقاد جس کی ذمہ داری ہے‘ اسی نے ادا کرنی ہے۔ کسی اور کو اس کیلئے فکرمند نہیں ہونا چاہیے۔ قوم دفاع وطن کے تقاضوں کی بنیاد پر ہی عساکر پاکستان پر اپنی جان نچھاور کرتی ہے جبکہ سسٹم کو چلانے کیلئے عنان اقتدار کس کے ہاتھ میں دینی ہے‘ اس کا فیصلہ بھی عوام نے ہی انتخابات کے ذریعے کرنا ہے۔ اس بنیاد پر تو آرمی چیف کی جانب سے انتخابات کے انعقاد کے اعلان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کسی ماورائے آئین اقدام کے تحت ہی ہو سکتا ہے۔