رابن ہُڈ ، سپرمین اورڈورے مون
ننھے منے دوست اپنی ابتدائی عمر میں کہانیاں سننے کا شوق رکھتے ہیں،جوں جوں وقت گزرتا ہے اورجب سکول جانے کے قابل ہو جاتے ہیں تو دوستوں سے کہانیاں سنتے اور سناتے ہیں ساتھ ساتھ پڑھنے کا شوق بھی رکھتے ہیں۔بچوں کے میگزین میں کہانیوں کی مناسبت سے مختلف قسم کے کارٹون شائع ہوتے ہیں،کہانی کے ساتھ کارٹون اس لئے لازم وملزوم ہے کہ کارٹون کے ساتھ کہانی پڑھنے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔بغیر کارٹون کے کہانی ’’پھیکی پھیکی‘‘محسوس ہوتی ہے۔کارٹون بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے پس پردہ کافی محنت درکارہوتی ہے ، یہ ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں، ہاں البتہ شوق لگن اور محنت سے ہر کام پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے،جو بچے پینٹنگ کا شوق رکھتے ہیں کارٹون بنانا بھی سیکھ جاتے ہیں، بے شک پینٹنگ اور کارٹون دونوں علیحدہ علیحدہ شعبے ہیں ،لیکن ان میں دلچسپی رکھنے والے طالب علم اپنے شوق کو پروان چڑھانے کے لئے اپنی ضروری کاپیاں بھی اس کام میں ضائع کر دیتے ہیں۔آج کل الیکٹرانکس میڈیا کا دور ہے تقریباً ہر چینل پربچوں کی دلچسپی بڑھانے کے لئے کارٹون اشتہارات بھی ہوتے ہیں ،کارٹون چینل پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔عرصہ دراز سے اخبارات، رسائل اور مختلف میگزین میں کارٹون شائع ہو رہے ہیں اور ہوتے رہے گے جو کہانیوں میں نہ صرف مزید دلچسپی بڑھا دیتے ہیں بلکہ کہانی کو چار چاند بھی لگا دیتے ہیں۔موجودہ دور میں نامور اور مختلف شخصیات کے کارٹون بنائے جاتے ہیں اور نیچے لکھی ہوئی عبارت یا چند جملوں سے کارٹون کا مقصد بھی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ یہ کارٹون نہ صرف بچے بلکہ بڑے افراد بھی بڑے شوق سے دیکھتے اور مخظوظ ہوتے ہیں۔ماضی میں رنگین تو نہیں بلیک اینڈ وائٹ کارٹون بنائے جاتے تھے جبکہ اُس وقت رنگین کارٹون کا دور نہ تھااور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رنگین کارٹون شائع ہونے لگے جبکہ بلیک اینڈ وائٹ کی جگہ رنگین فلموں اورکارٹونز نے لے لی۔سنیما حال میں رنگین کارٹون فلمیں ریلیز ہونے لگیں،آج کل عوام کا رجحان سنیما ہالوں کی طرف نہ ہونے کے برابر ہے ماضی میں یہی سنیماہالز پر بڑا عروج تھااور بچے بھی والدین کے ہمراہ کارٹون فلمیں دیکھنے جاتے تھے۔
جن‘ پری‘ شہزادوں‘ شہزادیوں اور جادوگروں کے کارٹونزبچوں میں بڑے مقبول تھے اور ان کی کہانیاں بچے بڑے شوق سے پڑھتے تھے،آج کے دور میں بچوں میں اتنا شعور ہے اوراتنی سوجھ بوجھ ہے کہ جن ،پریوں اور جادو گروں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، لیکن پھر بھی کارٹون کہانیوں کو اس انداز سے فلمایا جاتا ہے کہ کہانی میں دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے۔ بچے انہیں فلموں کوماضی کی طرح آج بھی بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔پڑھنے لکھنے والے بچے اگر ان کہانیوں کے ساتھ کارٹون نہ ہوں تواسے شوق سے نہیں پڑھتے اور نہ ہی انہیں پڑھنے کا مزہ آتا ہے ،جب کہانیوں کی مناسبت سے کارٹون بنائے جائیں توکہانی پڑھنے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے کیونکہ کریکٹر کی مناسبت سے کارٹون یا سکچ بنائے جاتے ہیںاور ننھے منے قاری ان دلچسپ کہانیوں سے مخظوظ ہوتے ہیں۔ابتداء میں بچوں کی تفریح کا واحد ذریعہ گلی محلوں میں کھیلناتھا۔جب ٹیلی ویژن ایجاد ہوا توٹی وی کی نشریات شام پانچ بجے شروع ہوتی اور رات گیارہ بجے تک جاری رہتی، یہ بچوں کے لئے کسی عجوبے سے کم نہ تھا،جب ٹی وی پر کارٹون نشر ہونے لگے تو بچوں کی توجیسے عید ہو گئی،اُس وقت بچوں کی پسند صرف اور صرف کارٹون فلمیں تھیں۔یوں تو بچے اس وقت بھی سیر و تفریح کے لئے پارکوں میں جاتے چڑیا گھر کی سیر کرتے‘ تاریخی مقامات میں جا کر اپنی معلومات میں اضافہ کرتے تھے لیکن گھر میں تفریح کا یا وقت گزارنے کا کوئی اورذریعہ نہ تھاایسے میں بچے بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جاتے۔جب کارٹون نشر ہونے کا وقت ہوتا تو گلی محلے سنسان ہو جاتے۔یہ حقیقت ہے کہ گھر اور محلے کی رونقیں بچوں کے دم سے ہیں۔محلے کے بچے اس وقت کسی ایک گھر میں اکٹھے ہو جاتے۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب ٹیلی ویژن خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی، بہت کم لوگوں کی پہنچ میں تھا۔ایک محلے میں چند ٹیلی ویژن ہوتے اور گلی محلے کے بچوں کا ٹولہ کسی ایک گھر کا رخ کرتا اور وہاں ڈیرے ڈال لیتا۔
ماضی میں بچوں کا پسندیدہ کارٹون ’’رابن ہڈ‘‘ تھا۔ بچے کارٹون بڑے شوق سے دیکھتے اور رابن ہڈ کے کریکٹر کو اپنانے کی کوشش کرتے ، سکول یا گھر میں فارغ اوقات کے دوران بچے اکھٹے ہو کر رابن ہڈ کھیلتے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کارٹون فلموں کا سلسلہ ایسا شروع ہوا جس نے تھمنے کا نام نہ لیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ بعدازاں بے شمار کارٹون پروگرام ٹیلی ویژن پر نشر ہوئے جبکہ بالخصوص کارٹون فلمیں سینما گھر کی زینت بھی بنیں جہاں بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں نے بھی اسے بے حد پسند کیا۔موجودہ دور میں جہاں سائنس نے بہت ترقی کی اس سے استفادہ کرتے ہوئے کارٹون نے بلیک اینڈ وائٹ کی جگہ کلر کارٹونز نے لے لی اور اس میں جدت بھی آ گئی ہے، کارٹون فلمیں بنانا انتہائی مشکل کام ہے۔آج کل بچوں کا پسندیدہ کارٹون ڈورے مون ہے اس سے قبل سُپر میں بھی بچوں میں بڑا مقبول رہاجبکہ ٹام اینڈ جیری بھی بچوں میں بے حد مقبول تھا۔ چھوٹے بچے لڑائی اورمارکٹائی والی فلمیں زیادہ پسند کرتے ہیں ،انہیں ڈرامے دیکھنے کا شوق نہیں ‘ انہیں تو کارٹون موویز چاہئے۔ جس گھر میں ایک ٹیلی ویژن ہے وہاں بچوں کی ضدچلتی ہے۔ وہ چینل تبدیل نہیں کرنے دیتے اوراس میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ کھانے پینے کی پرواہ نہیں ہوتی۔بچوں کو کارٹون موویزبہت پسند ہیں اور جب کھانے کا وقت ہو تو کھانے پینے کو ترجیح نہیں دیتے جبکہ چینلز چینج کرنے پر بہن بھائیوں میں ناراضگی اورہلکی پھلکی نوک جھوک بھی ہو جاتی ہے۔
عام فلموں کی طرح کارٹون موویز میں بھی مختلف کردار ہوتے ہیں یہ قدرتی بات ہے کہ جب کسی پر ظلم ہو رہا ہو بچے دیکھ نہیں سکتے اور جب ظالم کی پٹائی ہو رہی ہو تو بڑے خوش ہوتے ہیں‘ کارٹون موویز کے کریکٹر اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ مین کریکٹر کو ٹائٹل کا نام دیا جاتا ہے۔ مین کریکٹر جس کے نام سے ٹائٹل دیا گیا ہو وہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بچے اس پر بہت خوش ہوتے ہیں۔ بچے آخر بچے ہیں من کے سچے ہیں اور وہ ظلم برداشت نہیں کر سکتے۔ کارٹون اور دوسری فلمیں ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں۔