ضلعی انتظامیہ اسلام آباد کا غریب پرور فیصلہ(2)
جملہ معترضہ کہ بھلے وقتوں میں جینا اور مرنا دونوں کام آسان تھے کیونکہ لوگ زندگی اور حقیقت کے عین قریب تھے، اور اب تو مرنا بھی کتنا دشوار ہوگیا ہے؟ اس قدر دشوار کہ وقت نزع اور موت کی کٹھن منزل بارے فکر کے بجائے ایک مفلس یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کے مر جانے پر گوروکفن کا بندوبست کیسے ہوگا کیونکہ اس خاطر بھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے۔ غریب کی پونجی تو اس سے عاجز ہے۔جائے قبر میسر نہ ہونے پر آپ کو متعلقہ ادارے کے افراد کو وافر رقم دینا پڑتی ہے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ معمار و مزدور کا بندوبست کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔آپ کے سامنے کچی ، پختہ اور تیار قبر کا معاوضہ بھی ہوتا ہے ، جس کے باعث آپ کو قطعاً مرنے کا جی نہیں کرتا ۔ آپ تصوف کی اصطلاح کے اعتبار سے نہیں بلکہ اخراجات کے خوف سے، مرنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں کیونکہ حقیقی موت پر، معیارات پر نہ اترنے والے پکوان کو تنقید و تنقیص کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مثلاً پلائو میں مرچ افزوں جبکہ نمک خفیف ہے ، چنے بھی پتھر کے مشابہ ہیں اور اگر یخ نان کے بجائے تنور کی دہکتی روٹی ہوتی تو بہتر ہوتا وغیرہ وغیرہ۔تاہم مخیر، صاحب توفیق و استطاعت حضرات کا خالق کی رضا کی خاطر مخلوق کے لئے خوان بچھانا احسن ہے بلکہ مقبول ہے، ان کی بات اور ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ ہم حقیقی زندگی اور زندگی کی حقیقت سے کتنے دور نکل گئے ہیں۔ ہم نے زندگی کو سہل کرنے کے بجائے مزید دشوار کر دیا۔ بناوٹ و سجاوٹ کے گرداب میں جیئے جا رہے ہیں بلکہ جی سے جا رہے ہیں۔ زندگی اور رشتوں سے مسلسل دور ہوتے جا ر ہے ہیں۔ جینا اور مرنا واقعی مشکل ہوگیا ہے۔ فقط ضلعی انتظامیہ اسلام آباد نہیں، بلکہ ملک کی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ سے بھی گزارش ہے کہ شادی ایکٹ کے علاوہ متذکرہ صورت حالات کے پیش نظر کوئی موت ایکٹ بھی متعارف اور نافذ کیا جانا چاہئے ، اس پر غریب عوام صد شکر بجا لائیں گے، گویا جان جانِ آفریں کے سپرد کرنا سہل ہو جائے گا۔ آخری جملے میں فقط طنز کے نشتر نہ تلاش کئے جائیں۔
(ختم شد)