وزیرِدفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے، حکومتی پالیسی واضح کردی ہے کہ ’’جہاں فوجی جوانوں کا خون بہے گا وہاں جوابی کارروائی ضرور ہو گی اور یہ کہ سیکورٹی فورسز کے جوانوں پر حملے کے بعد ہی شمالی وزیرستان میں جوابی کارروائی کی گئی ہے‘‘۔ رانا صاحب نے کہا کہ’’مُلک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ فوج اور سیاستدانوں کا مشترکہ فیصلہ ہے‘‘۔ اِس سے قبل شمالی وزیرستان روانہ ہونے والے قافلے میں بم دھماکے اور راولپنڈی کے آر اے بازار میں خُودکش حملے کے بعد وزیرِاعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ ’’حکومت انسانیت کے دشمنوں کے سامنے نہیں جھُکے گی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی قربانیوں پر پوری قوم کو فخر ہے‘‘۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل نے کہا کہ ’’ہمارا عزم کسی صورت کمزور نہیں کِیا جا سکتا۔ دہشت گردوں کو جلد کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا‘‘۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں36غیر مُلکی بھی مارے گئے جِن میں 33اُزبک اور 3جرمن باشندے تھے۔
مولانا سمیع اُلحق کے اکوڑہ خٹک کے مدرسہ دارالعلوم حقّانیہ کے فارغ اُلتحصیل طالبان تو خیر اُن کے ’’بیٹے‘‘ ہیں لیکن پاک فوج کی جوابی کارروائی سے مارے جانے والے اُزبک اور جرمن دہشت گردوں کے بھی مولانا صاحب ’’باپ‘‘ ہیں؟ کہ انہوں نے مذاکرات کے عمل سے علیحدگی اختیار کر لی ہے؟ وفاقی حکومت کے اتحادی مولانا فضل الرحمن کا روّیہ بھی خوب ہے۔ خود کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بن گئے۔ مولانا محمد خان شیرانی کو اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین، جناب اکرم دُرانی کو وفاقی وزیر اور مولانا عبدالغفور حیدری کو وزیرِ مملکت بنوا لیا اور پھر بھی پاک فوج اور معصوم اور بے گناہ شہریوں کے قاتلوں کی ہمدردی میں گھُلے جا رہے ہیں۔
’’جنابِ شیخ کا نقشِ قدم،یُوں بھی ہے اور یوں بھی‘‘
سیّد منور حسن نے شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی جوابی کارروائی پر بُرا منایا ہے اور جناب عمران خان نے بھی۔ عمران خان کا مطالبہ ہے کہ ’’اگر طالبان کے خلاف آپریشن کرنا ہے تو مجھے تو بتایا جائے؟‘‘ سوال یہ ہے کہ جب طالبان اور اُن کے بھائی بند دوسرے دہشت گرد پاک فوج کے افسروں اور جوانوں اور نہتے شہریوں کی جان لیتے ہیں تو کیا وہ آپ سے اجازت لیتے ہیں؟ مولانا سمیع اُلحق، مولانا فضل الرحمن کے بعد سیّد منور حسن فتویٰ دے چکے ہیں کہ ’’امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے‘‘ طالبان کے خلاف جنگ میں مارے جانے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو ’’شہید‘‘ نہیں کہا جا سکتا‘‘۔ بلا امتیاز تمام مسلمانوں نے متحد ہو کر قیامِ پاکستان کے لئے جدو جہد کی تھی، علّامہ اقبال ؒ اور قائدِاعظمؒ غیر فرقہ وارانہ اسلام کے علمبردار تھے لیکن اُن کے خلاف کُفر کے فتوے دینے والے عُلما اور اُن کے جانشینوں کی سرپرستی میں قائم مدرسوں سے تعلیم و تربیت پانے والے دہشت گردوں نے ایک عرصہ سے مسجدوں، اولیائے کرام کے مزارات اور امام بارگاہوں پر خُود کُش حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ انہوں نے گرجا گھروں پر حملہ کر کے مصروفِ عبادت عیسائیوں کا قتل تو ’’شریعت کے عین مطابق‘‘ قرار دِیا ہے لیکن کیاشیعہ مسلمانوں کو ’’کافر‘‘ قرار دے کر اُن کا قتلِ عام بھی شریعت کے عین مطابق ہے؟۔
فرزندِ اقبال ؒ جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی خُود نوشت سوانح حیات ’’اپنا گریبان چاک‘‘ کے (صفحہ 44 پر) لِکھتے ہیں کہ ’’علّامہ اقبال ؒ نے اُن (ڈاکٹر جاوید اقبال کو) کو وصِیت کی تھی کہ ’’بعض فِرقوں کی طرف لوگ محض اِس واسطے مائل ہوتے ہیں کہ اِن فِرقوں کے ساتھ اُن کا تعلق پیدا کرنے سے دُنیوی فائدہ ہے۔ میرے خیال میں بڑا بد بخت ہے وہ انسان جو صحیح دِینی عقائد کو مادی فائدے کی خاطر قُربان کر دے۔ غرض یہ ہے کہ طریقہء حضراتِ اہلِ سُنّت محفوظ ہے اور اِسی پر گامزن ہونا چاہئے اور آئمہ اہلِ بیت کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھنا چاہئے‘‘۔ یہ تھا مصّورِ پاکستان کا (ڈاکٹر جاوید اقبال کے لئے وصِیت کے حوالے سے) متحدہ ہندوستان اور پھر قیامِ پاکستان کے بعد عام مسلمانوں کے لئے پیغام۔ ’’اپنا گریباں چاک‘‘ کے صفحہ 28/27 پر ڈاکٹر جاوید اقبال نے لکھا ہے کہ ’’میری والدہ نے غشی کے عالم میں دائمی اجل کو لبیک کہا اور رات کو ’’بی بی پاک دامن‘‘ کے قبرستان میں دفنا دی گئیں‘‘۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق خلیفہء اسلام چہارم حضرت علی مرتضی ؓ کی صاحبزادی سیّدہ رقیّہؓ کو بی بی پاک دامن‘‘ کہا جاتا ہے۔ عاشقِ رسولؐ اور آئمہ اہل بیت کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھنے والے علّامہ اقبال ؒ کے لئے اپنی رفیقہء حیات کے جسدِ خاک کو بی بی پاک دامن کے قبرستان میں دفن کرانے میں اپنا ایمان خطرے میں پڑنے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔
اب رہا بانیء پاکستان حضرت قائدِ اعظم ؒ کا عقیدہ۔ تحریکِ پاکستان کے ایک مجاہد ایڈووکیٹ جناب آزاد بن حیدر اپنی تالیف ’’تاریخِ آل انڈیا مسلم لیگ۔ سر سیّد سے قائدِ اعظم ؒ تک‘‘ کے صفحہ 1098 پر قائدِاعظم ؒ کے عقِیدے کا مقدّمہ‘‘ کے عنوان سے لِکھتے ہیں کہ ’’ہائی کورٹ آف سندھ اور بلوچستان میں قائدِ اعظم ؒ کی ہمشیرہ محترمہ شیریں بائی جناح کی طرف سے مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح ؒ کی جائیداد کے بارے میں داخل کی گئی درخواست کے مقدمے میں (اُن دِنوں) اٹارنی جنرل جناب شریف اُلدّین پِیرزادہ نے اپنی شہادت میں کہا کہ’’قائدِاعظم ؒ نہ شیعہ تھے نہ سُنّی بلکہ وہ ایک مسلمان تھے‘‘۔ جناب پِیرزادہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ’’میرٹھ میں مسلم لیگ کے کارکنوں نے جب قائدِ اعظم ؒ سے سوال کِیا کہ ’’آپ شیعہ ہیں یا سُنّی؟‘‘ تو قائدِاعظم ؒ نے فوراً دریافت کِیا کہ ’’رسول اکرم ؐ کیا تھے؟ میں حضرت محمد ؐ کا پَیروکار ہُوں۔ شیعہ یا سُنّی نہیں ہُوں‘‘۔ جناب پِیرزادہ نے عدالت کو مزید بتایا کہ ’’لکھنئو کے ظفر المُلک کے ایک مکتوب کے جواب میں قائدِ اعظم ؒ نے لِکھا تھا کہ ’’حضرت علیؓ چوتھے خلیفہ تھے اور مَیں یہ بھی جانتا ہُوں کہ مسلمان شیعہ یا سُنّی ہونے کے قطع نظر21رمضان اُلمبارک کو شہادتِ علیؓ کا دِن مناتے ہیں‘‘۔
مستونگ میں،ایران سے واپس آنے والے زائرین کے قتلِ عام کے بعد مُلک بھر کے شیعہ مُسلمانوں میں عدمِ تحفظ کا احساس مزید بڑھ گیا ہے۔مُلک بھر میں شیعہ مسلمانوں کی مختلف تنظیموں کی طرف سے احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔تا دمِ تحریر کوئٹہ میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کی میّتیں رکھ کر احتجاج کِیا جا رہا ہے۔وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے زبانی جمع خرچ کِیا ہے۔وہ بے بس ہیں تو مستعفی ہو کر گھر کیوں نہیں چلے جاتے؟۔’’شیعہ مسلمانوں پر عِتابِ مسلسل‘‘ سے علّامہ اقبال ؒ اور قائدِاعظم ؒ کی رُوحوں کو کِتنی تکلیف ہو رہی ہو گی؟۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش کا ’’بڑا ملزم‘‘ قرار دے کر اُنہیں پھانسی دے دی گئی تھی لیکن پاک فوج کے 8 ہزار افسروں اور جوانوں اور 42 ہزار معصوم اور بے گناہ شہریوں کے قتل کی سازش میں شریک مذہبی رہنمائوں ’’بڑے ملزموں‘‘ کا احترام کر کے اُن سے خیر کی توقع کیوں کی جا رہی ہے؟۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024