وزیراعظم یوتھ لون سکیم کو متعارف کروایا گیا تو ملک کے بے روزگار نوجوانوں کو امید کی ایک کرن نظر آتی دکھائی دی کہ وہ اب اپنے پیروں پر نہ صرف کھڑے ہونے کے قابل ہوسکیں گے بلکہ ذاتی کاروبار شروع کرکے بے روزگاری سے بھی نجات حاصل کرسکیں گے لیکن بنک جاتے ہی جب انہیں سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑا تو ان کو تصویر کا دوسرا رُخ دکھائی دیا کسی بھی غریب کیلئے ان شرائط کو پورا کرنا ناممکن ہے سب سے مشکل اور پیچیدہ شرط ’ ’ شخصی ضمانت‘‘ ہے جس کیلئے صرف سرکاری ملازمین یا صاحب جائیداد حضرات اہل ہیں جہاں تک بات سرکاری ملازمین کی ہے تو ہر کسی کیلئے ان سے تعلق یا رشتہ داری ہونا ممکن نہیں سرکاری ملازمین تو کسی کی شناختی تصدیق ہی بمشکل کرتے ہیں تو اس صورتحال میں لاکھوں روپے کی شخصی ضمانت کیونکر دیں گے؟ جبکہ دوسری طرف غریب کیلئے کوئی صاحب جائیداد اپنی املاک کو دائو پر لگا کر ضمانت کیوں دے گا؟ ان شرائط کی بدولت غریب افراد کی درخواستیں محض ان کے ہاتھوں میں ہی تھمے رہ گئیں۔ شخصی ضمانت کے ساتھ ساتھ ایک اور پیچیدہ شرط ضمانت دہندہ اور درخواست دہندہ کا شناختی کارڈ پر اندراج شدہ پتہ پر رہائش پذیر ہونا ضروری ہے بصورت دیگر کمپیوٹر شروع ہی میں ایسی درخواستوں کو مسترد کردے گا جو اس شرط پر پورا نہ اُترتے ہوں گے اس بنا ء پر عوام کی اکثریت ان قرضوںسے محروم رہ جائے گی کیونکہ اکثر شہری شناختی کارڈ پر موجود پتوں پر رہائش پذیر نہیں ہوتے مثلاً لاہور شہر کو ہی لے لیجئے جہاں کی آباد ی کا 80% ان شہریوں پر مشتمل ہے جو ملک کے مختلف حصوں سے روزگار کی خاطر یہاں آبسے یہی حال دوسرے شہروں کا بھی ہے ایسے میں لوگوں کا اپنے موجودہ شناختی کارڈپر موجود پتوںپر مکین ہونا مشکل ہے اس پر مستزادیہ کہ ضمانت دہندہ اور درخواست گزار کا ایک ہی علاقے میں رہائش رکھنا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ؟ ان سارے پیچیدہ مراحل کے بعد قرعہ اندازیوں کے ذریعے قرضے کی تقسیم نوجوانوں کیلئے ایک اور مایوس کن عمل ہے کہ اگر کوئی کسی نہ کسی طرح ان تمام شرائط کو پورا کرکے قرضے کیلئے اہل قرار ہوبھی جائے تو قرعہ انداز میں نام نکلنا یا نہ نکلنا اس کی قسمت۔ شخصی ضمانت کی شرط ایک اور پہلو خواتین سرکاری ملازمین کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے جن پر خاندان و سسرال کے مرد حضرات اپنے رشتہ داروں یا عزیزوں کی ضمانت دینے پر مجبور کر رہے ہیں کہ خواہ وہ قابل عتبار ہویا نہ ہو وہ اسکی ضمانت دیں چاہے اُنہیں اپنی ملازمین کو ہی کیوں نہ دائو پر لگانا پڑے اس صورتحال میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس شرط کی وجہ سے سرکاری ملازمین کی گھریلو زندگی اور خاندانی تعلقات بُری طرح متاثر ہورہے ہیں انہی شرائط کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سی پیچیدہ شرائط ہیں جن کی وجہ سے یہ سکیم غریبوں کی دسترس سے باہر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے ہمیشہ ایسے اقدامات کئے ہیں جن کا مقصد عوامی فلاح و ترقی ہے موجودہ یوتھ لون سکیم بھی حکومت کا ایک ایسا ہی کارنامہ ہے جس کیلئے غیر ملکی قرضوں کے باوجود 100ارب روپے کی خطیر رقم اس مد میں مختص کی گئی ہے جس کا مقصد ملک کے بے روزگار طبقہ کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ وہ ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنا اہم اور تعمیری کردار ادا کرسکیں بلاشبہ یہ حکومت کا ایک قابل تحسین جذبہ ہے کیونکہ سابقہ حکمرانوں نے قرضے تو عوام کے نام پر لئے تاہم ان کا فائدہ محض ایک مخصوص طبقے کو ہی پہنچ سکا ان تمام خصوصیات کے باوجود یہ سکیم محض اس وقت ہی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے جب اس کا اطلاق ایسے انداز میں کیاجائے کہ زیادہ سے زیادہ شہری اس سے مستفید ہوسکیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024