تحفظ ِ پاکستان ترمیمی آرڈیننس کا اجرائ‘ لاپتہ افراد کے حوالے سے اہم پیشرفت…حکومتی اتھارٹی تسلیم کراکے ہی امن و امان کی بحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے
تحفظ ِ پاکستان ترمیمی آرڈیننس کا اجرائ‘ لاپتہ افراد کے حوالے سے اہم پیشرفت…حکومتی اتھارٹی تسلیم کراکے ہی امن و امان کی بحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے
صدر مملکت ممنون حسین نے تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس مجریہ 2014ء پر گزشتہ روز دستخط کر دیئے جس کے ساتھ ہی یہ آرڈیننس ملک بھر میں نافذالعمل ہو گیا۔ اس آرڈیننس کے تحت تحفظ پاکستان آرڈیننس مجریہ 2013ء کی مختلف شقوں میں ترمیم اور بعض شقوں کا اضافہ کرکے پاکستان کی سالمیت اور سکیورٹی کیخلاف جرائم کا ارتکاب کرنیوالوں کیخلاف قانونی کارروائی کو مؤثر بنایا گیا ہے۔ ترمیمی آرڈیننس میں شامل کی گئی نئی شق (سی) میں ’’جنگجو‘‘ کی نئی تشریح کرتے ہوئے قرار دیا گیا ہے کہ جو پاکستان‘ اسکے شہریوں اور مسلح یا نیم مسلح افواج کیخلاف ہتھیار اٹھاتا ہے یا پاکستان کیخلاف جنگ کرنے یا ہتھیار اٹھانے میں معاونت کرتا ہے یا مدد فراہم کرتا ہے اور اسی طرح جو پاکستان کی سالمیت اور سکیورٹی کیلئے خطرہ پیدا کرتا ہے‘ وہ ’’جنگجو‘‘ کے زمرے میں آئیگا اور آرڈیننس کی متعلقہ دفعات کے تحت مستوجب سزا ہوگا۔ ترمیمی آرڈیننس کے تحت ایسے کسی بھی فرد یا افراد کو آئین کی دفعہ 245 کے تحت وفاقی یا صوبائی حکومت کی معاونت کرنیوالی مسلح افواج یا انسداد دہشت گردی ایکٹ مجریہ 1997ء کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کیلئے موجود نیم مسلح افواج اور دوسری فورسز حراست میں لے سکیں گی‘ جنہیں باضابطہ تفتیش اور پراسیکیوشن کیلئے پولیس یا کسی بھی تحقیقاتی ایجنسی کے حوالے کیا جا سکے گا۔
اس آرڈیننس کے تحت آرڈیننس کے اطلاق سے پہلے مسلح افواج نیم مسلح فورسز کے زیر حراست یا گرفتار افراد کو اس آرڈیننس کی شقوں ہی کے ماتحت زیر حراست یا گرفتار تصور کیا جائیگا جن کے حراستی مقام کے بارے میں معلومات ظاہر نہیں کی جائیں گی۔ آرڈیننس کی شق9 کے تحت خصوصی عدالت ’’جنگجو‘‘ کے زمرے میں آنیوالے کسی فرد یا افراد کو ملک کی شہریت سے محروم کر سکے گی۔ اس آرڈیننس کے اطلاق سے اب لاپتہ افراد پر اس آرڈیننس کے تحت ہی مقدمات چلائے جائینگے چنانچہ سکیورٹی اداروں کے پاس موجود لاپتہ افراد اب اپنی گمشدگی کے پہلے روز سے ہی زیر حراست تصور کئے جائینگے اور تمام لاپتہ افراد کیخلاف باقاعدہ مقدمات چلائے جائینگے۔ نئے آرڈیننس کے تحت دورانِ حراست کسی ملزم کی موت واقع ہونے پر متعلقہ سکیورٹی ادارے کو اس موت کی ذمہ داری سے مسثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔
اگرچہ اس آرڈیننس کا اطلاق ملک میں دہشت گردی کے ناسور کے خاتمہ کیلئے قواعد و ضوابط کے دائرے میں رہ کر سخت کارروائی عمل میں لانے اور اس کا رروائی کو مؤثر بنانے کے نکتۂ نظر کے تحت کیا گیا ہے تاہم ترمیمی آرڈیننس آرڈیننس میں لاپتہ افراد کو فوکس کرکے درحقیقت سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے بارے میں گزشتہ تین سال سے زائد عرصے سے زیر سماعت مقدمات سے حکومت کی گلوخلاصی کرانے کا قانونی راستہ نکالا گیا ہے جس کے بارے میں قانونی اور آئینی حلقوں کی جانب سے متضاد آراء سامنے آئی ہیں۔ بعض قانونی حلقوں کی رائے میں یہ آرڈیننس شہریوں کی نقل و حرکت کی آزادی سے متعلق آئین کی بنیادی حقوق کی شقوں کے منافی ہے جس سے حکومت کو شہری آزادیاں سلب کرنے کا اختیار مل جائیگا۔ اسی تناظر میں گزشتہ روز سپریم کورٹ نے بھی لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کے دوران باور کرایا ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہوا تو عدالت اس بارے میں فیصلہ دیگی جبکہ اس آرڈیننس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اسکے اطلاق سے اب سکیورٹی ایجنسیوں کا کسی بھی شہری کو گھر سے اٹھانے اور لاپتہ کرنے کا شتربے مہار اختیار ختم ہو گیا ہے اور اب کسی سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے حراست میں لئے گئے کسی بھی شخص کی تحویل کے بارے میں متعلقہ ایجنسی کی جانب سے لاعلمی کا اظہار نہیں کیا جا سکے گا بلکہ اسکی باضابطہ گرفتاری ڈال کر اس کیخلاف مقدمہ درج کیا جائیگا جس کی قانونی تقاضے کے مطابق تفتیش مکمل کرکے اس کا چالان متعلقہ خصوصی عدالت میں پیش کیا جائیگا۔ اس طرح ملک کی سالمیت اور دہشت گردی کے ذریعے حکومتی ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے جرم کے شبہ میں حراست میں لئے گئے کسی بھی فرد یا افراد پر قانون کی عملداری کا اطلاق ہو گا اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس کا جرم ثابت ہونے پر اسے سزا دی جا سکے گی‘ بصورت دیگر وہ عدالت سے بری ہو کر اپنی آزاد زندگی کی جانب واپس لوٹ جائیگا۔ لاپتہ افراد کے معاملہ میں سپریم کورٹ کی تشویش بھی یہی تھی کہ جب ملک میں آئین‘ قانون اور اسکے تحت قائم عدالتوں کی عملداری ہے تو پھر کسی بھی شخص کو گھر سے اٹھا کر لاپتہ کرنے اور اسکے معاملہ کی خود ہی تفتیش کرکے خود ہی سزا دینے کا کیا جواز ہے جبکہ اس سے حکومتی ریاستی اتھارٹی کے غیرمؤثر ہونے اور ریاست کے اندر ریاست پیدا ہونے کا تصور پختہ ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر سپریم کورٹ کی جانب سے سابقہ اور موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی اور ایجنسیوں کے کردار کے حوالے سے سخت ریمارکس بھی دیئے جاتے رہے۔ لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرنے کا تقاضا بھی کیا جاتا رہا اور عدالتی احکام کی عدم تعمیل پر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سمیت اعلیٰ حکام کی جواب طلبی بھی کی جاتی رہی جس کا مقصد عدالت عظمیٰ کی جانب سے کسی بھی شخص یا ادارے کے آئین و قانون سے بالاتر ہونے کے تاثر کو زائل کرنا تھا۔ چنانچہ تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس کے اطلاق کے بعد اب لوگوں کو کسی شبہ کی بنیاد پر گھروں سے اٹھا کر غائب کرنے سے متعلق ایجنسیوں کے کردار میں نمایاں تبدیلی آئیگی اور حراست میں لئے گئے افراد کو قانون و انصاف کی عملداری کے تابع لایا جائیگا تو اس سے لاپتہ افراد کا تصور ہی ختم ہو جائیگا جبکہ اس سے متعلقہ ایجنسیوں کے متوازی عدالتی نظام کے حوالے سے قائم شدہ تاثر کا بھی ازخود خاتمہ ہو جائیگا اور جب اعلیٰ عدالتیں اس آرڈیننس کے تحت کسی شخص کیخلاف متعلقہ سکیورٹی ایجنسی کی کارروائی میں کوئی بے ضابطگی پائیں گی تو اس پر سپریم کورٹ کی گزشتہ روز کی رولنگ کی بنیاد پر عدالتی چیک بھی موجود ہو گا جس سے سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے اختیارات سے تجاوز کرنے کی شکایات کا بھی ازالہ ہو جائیگا۔ اس تناظر میں متذکرہ آرڈیننس کے اطلاق کے بعد حکومت اب لاپتہ افراد کے زیرسماعت مقدمات کے حوالے سے تو امور حکومت کو لاحق پریشانی سے خلاصی پالے گی‘ بشرطیکہ اس آرڈیننس کا صحیح معنوں میں اطلاق کر بھی دیا جائے اور تمام لاپتہ متعلقہ افراد کیخلاف اس آرڈیننس کے تحت باضابطہ مقدمات درج کرکے اور انکی گرفتاری ڈال کر انہیں عدالت عظمیٰ اور متعلقہ ٹرائل کورٹ میں پیش کر دیا جائے۔ چونکہ اس آرڈیننس کے تحت دوران حراست فوت ہونیوالے افراد کی موت سے متعلقہ ایجنسی یا ایجنسیوں کو بری الذمہ قرار دے دیا گیا ہے‘ جس کے باعث اب ان اموات میں متعلقہ ایجنسیوں کی عدالتی پکڑ نہیں ہو سکے گی تاہم اب اس قانونی سہولت کا ناجائز استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اس آرڈیننس کا صحیح معنوں میں اطلاق ہو گا تو کسی ایجنسی کی جانب سے حراست میں لئے گئے کسی فرد یا افراد کی مسلسل اسی ایجنسی کی تحویل میں رہنے کی نوبت ہی نہیں آئیگی اور قانون و انصاف کی عملداری کے تحت اسکی سزا یا جزا کا فیصلہ ہو گا۔
اس وقت ملک کو جس بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے‘ اس سے حکومتی ریاستی اتھارٹی کو مؤثر بنانے والے سخت قوانین کے اجراء اور مؤثر اطلاق سے ہی عہدہ برأ ہوا جا سکتا ہے۔ اس معاملہ میں حکومت کی گومگو کی پالیسی کے باعث ہی اب تک دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوئی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پائی۔ اب جبکہ حکومت اور عسکری قیادتوں کے اتفاق رائے سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سکیورٹی فورسز کے اپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے تو اب اس اقدام کو بغیر کسی رورعایت کے منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے جبکہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کا جو بھی تقاضا ہے‘ وہ نبھاتے ہوئے ملک میں آئین‘ قانون اور انصاف کی عملداری کے تحت حکومتی ریاستی اتھارٹی کو تسلیم کرایا جائیگا تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں امن و امان کی بحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے۔