تحفظِ عامہ … پہلی ضرورت آخری ترجیح
تحفظِ عامہ … پہلی ضرورت آخری ترجیح
وطنِ عزیز میں گزشتہ ایک عشرے سے امنِ عامہ کی صورتِ حال اس قدر زوال پذیر رہی ہے کہ اب کوئی گھر‘کوئی فرد‘ کوئی ادارہ یا کوئی حکمران اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا۔عسکریت پسندوں کی لاتعداد تنظیمیں اور گروہ ملک کے طول و عرض میں رو بعمل ہیں اور تقریباً ہر جگہ پر لوکل جرائم پسند دو طرفہ مفاد کی بنا پران کی اعانت کر رہے ہیں۔معاشرہ اس ضمن میں دو واضح گروپس میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک وہ خواص جو ریاستی مشینری کے ذریعے یا اپنے مال کی طاقت پر اپنے گرد حفاظتی حصار بنائے رکھتے ہیں اور دوسرے اللہ توّکل والے‘ جو کہ ملکی آبادی کا بیشتر حصہ ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں کے نقصانات اور جذبات کا تناسب تقریباً برابر ہی ہے ۔جتنا دکھ اللہ توکل والوں کی اموات پر خواص کو ہوتا ہے اتنا ہی خواص کی اموات پر انہیں ہوتا ہے جو کہ قابلِ افسوس ہے۔اگر خواص پر اٹھنے والے اخراجات اورعوامی طاقت کے بے پناہ ذخیرے کو یکجا کر کے تحفظِ عامہ کا جال تیار کر لیا جائے تونہ صرف سماج دشمن عناصر کو اس میں قابو کیا جا سکتا ہے بلکہ بر وقت سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔تحفظِ عامہ ہتھیار‘ گارڈ‘ بلٹ پروف گاڑیاں وغیرہ استعمال میں لانے کا نام نہیں بلکہ وہ ماحول ہے جس میں تمام شہری بِلا لحاظ ِ دولت ‘پوزیشن‘ اور طبقاتی پہچان کے‘ اپنی جان ‘اپنے مال‘ اپنے حقوق‘ اپنی محنت اور عزتِ نفس کو غالب درجہ سوچ تک ہر دم محفوظ تصّور کریں اور یہ بھی یقین رکھیں اگر ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہو گئی تو بالآ خر انصاف ہی ملے گا۔ہم اس مقصد کے حصول کی خاطر قربانیاں بے مثال دیتے ہیں مگر نہ تو ہم قومی سطح پر آج تک کوئی جامع سکیورٹی پالیسی مرتّب کر سکے اور نہ ہی معاشرتی سطح پر غور و خوض یا از خود کوئی ایکشن لیا جس سے متعلقہ اداروں کو تقویت ملتی۔ ہمارے میڈیا میں اس موضوع پر آج تک ایک بھی ٹھوس پروگرام نہیں چلا جبکہ اس کے سیریل چلا کر کسی مثبت نتیجے پر پہنچنے کی عرصہ دراز سے اشد ضرورت ہے۔ سنگین حالات کے مقابلے کے لئے قومی یکجہتی ناگزیر ہے مگر قومی قائدین کے مائنڈ سیٹ کو پرکھنے کے لئے صرف نوائے وقت 20 جنوری 2014 کی ہیڈ لائنز کا ہی مطالعہ فرما لیں ا۔ فورسز کے قافلے میں بم دھماکہ 22 اہلکار جاں بحق 40 زخمی‘ تحریک طالبان نے ذمہ داری قبول کر لی۔ (اس کے ساتھ ہی) با مقصد مذاکرات کے لئے تیار ہیں حکومت اپنا اختیار اور اخلاص ثابت کرے (تحریک طالبان)۔ب۔ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑ رہے ہیں‘ مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو بھارت سے جنگ نہیں روکی جا سکے گی (وزیرِاعظم) ج۔ طالبان سے مذاکرات پر سیاسی قیادت کو(اب) اعتماد میں لینے کا فیصلہ (وزیرِ داخلہ)
د۔بنوں حملے کے ذمہ دار نوازشریف ہیں‘ وزیرِ اعظم ہوتا تو طالبان سے مذاکرات میں پہل کرتا (عمران)۔ہ۔ طالبان کی مذاکرات کی پیشکش خوش آئند‘ بنوں واقعہ کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہے(ترجمان جے یو آئی ایف) ۔و۔ حکمرانوں نے اب بھی مذاکرات کا موقع گنوا دیا تو پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملے گا (مولا سمیع الحق) ۔ی۔ طالبان کی آمادگی (اتنی لاشوں سے منسلک) خوش آئند ہے وزیرِ اعظم طالبان سے مذاکرات کے لئے کمیٹی بنائیں (منّور حّسن) ۔ کیا مشکل جنگیں اسی طرح جیتا کرتے ہیں؟ امن کے لئے ہمیں تین مرحلوں میں بر سرِ پیکار ہونا ہے۔ پہلا قومی سطح پر ایک موقف اور ایک حکمتِ عملی اپنا نا۔ دوسرا حکومتی سطح پر دہشت گردوں سے پہل (Initiative )چھین کر ان کے طاقت کے مراکز کو نشانہ بنانا اور تیسرا اندرونِ ملک پبلک کی شمولیت سے تحفظ کا حصار تعمیر کرنا ہے۔ تیسرا مرحلہ دراصل پہلی ترجیح اور تسلسل کا متقاضی ہے کیونکہ اس طرح کی جنگ کا یہی ما حصل ہوتا ہے اور اس کوشش میں معاشرے کا ہر فرد حصّہ ڈال سکتا ہے۔ اسی ضمن میں چند ایک تجاویز نذرِقارئین کی جاتی ہیں:۔
۱۔اہل وطن کو سب سے پہلے اس حقیقت پر حساس کرنے کی ضرورت ہے کہ آج ان کی گلیاں‘ سکول‘ بلکہ گھرکھلے پڑے ہیں۔ دہشت گرد اور ان کے معاون جرائم پسند جہاں چاہیں رہتے ہیںاور جس کو جب چاہیں نشانہ بناسکتے ہیں۔ اگر اس ناسور کو پھیلنے دیا گیا تو خدا نہ کرے ‘یہ آگے چل کر متاثرہ عرب ممالک کی طرح خانہ جنگی کے لئے وسیع میدان مہیا کر سکتے ہیں۔ یہ آگہی مکتب ‘ عبادت گاہوں ‘ سول سوسائٹی کے اجتماعات و میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائی جا سکتی ہے البتہ اسے سنسنی کا سبب نہ بننے دیا جائے۔
۲۔شہریوں کو اپنے علاقے میں موجود قدرے فارغ بزرگوں اور نوجوانوں پر مشتمل کمیٹیاں از خود بنا لینی چاہئیں جو اپنے گلی محلے میں کسی غیر مانوس شخص کی موجودگی یا غیر معمولی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں اور متعلقہ اتھارٹیز کو مطلع کرتے رہیں۔اگر کبھی بلدیاتی نظام چل جاتا تو اس طرح کے کاموں میں آسانی پیدا ہو جاتی مگر اب عوام کو خود ہی یہ لازمی امور سر انجام دینے ہیں۔
۳۔تھانے میں بیٹ انچارج کو زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ بیٹ انچارج کے پاس علاقے کے تمام ہتھیار اٹھانے والوں کا Update ریکارڈ ہو اور وہ علاقے کی کمیٹیوں ‘ گارڈوں وغیرہ سے رابطہ رکھے۔چونکہ قانون کے مطابق ہتھیار بند پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیاں تنخواہوںپر جی ایس ٹی لگنے کے بعد تقریباً ختم ہو رہی ہیںلہذا غیر ریکارڈ شدہ ہتھیاروں اور غیر تصدیق شدہ ہتھیار اٹھانے والوں کی ہر جگہ بھر مار ہے جس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔اس سے سوسائٹی میں تحفظ کا عدمِ توازن اور اپنے ہی ہمسایوں کے محافظوں سے خوف سا پیدا ہورہا ہے جس کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکل سکتے لہذا حکومت کو سفید کپڑوں میں رکھے گئے ہزاروں گارڈز کو کسی ضابطے میں لانے کی ضرورت ہے۔
۴۔محکمہ شہری دفاع کو تحفظ ِ عامہ کی کوششوں میں شامل کر لینا چاہیے۔ پائلٹ پراجیکٹ لاہور سے شروع کر لیں۔ لاہور میں ان کے 150 وارڈن پوسٹ اور ہر وارڈن میں 30 سے 60 رضا کار ہیں۔ اگر ان وارڈن کو 4/5 گارڈ دے کر علاقے کی نگرانی سونپ دی جائے تو بہترین پبلک انٹیلی جنس نیٹ ورک تیار ہو سکتا ہے۔ ہر واقعہ کی رپورٹ بیٹ انچارج کے ذریعے پولیس کو‘ ڈی جی شہری دفاع سے ہوم سیکرٹری کو اور سکیورٹی گارڈ چینل سے سپیشل برانچ کو پہنچ سکتی ہے۔اس طرح ملک کا کونہ کونہ نظر میں رکھا جا سکتا ہے۔ جب تک مجرموں کی گلیوں تک رسائی کو بند کر کے ان کی آماجگاہوں کو غیر محفوظ بنانے اور انکو کسی واردات کی طرف روانگی سے پیشتر تباہ کرنے کا نیٹ ورک موثر نہیں ہو جاتا امن خواب ہی رہے گا۔
۵۔فی الوقت چند حساس دفاتر کے علاوہ تنصیبات سکول پلازے وغیرہ جہاں خاصی پبلک کی آمدورفت رہتی ہے کسی کا سکیورٹی پلان نہیں ہے۔ مثلاً دھماکے کی صورت میں کسی سکول سے بچوں کا انخلاء ‘ ایمرجنسی گاڑیوں کی آمد وغیرہ تک کا منصوبہ نہیں اور سکیورٹی بھی بس خانہ پرُی ہی ہوتی ہے۔ ایسی تمام جگہوں کا سکیورٹی پلان اس کی ابتدائی پلاننگ کا حصّہ بنایا جائے جس پر بعد میں عمل درآمد کو پولیس مانیٹر کرے۔ اس طرح آجر کے معمولی خرچ پر عوام کو تحفّظ اور حکومت کو تحفّظ عامہ کے اقدامات میں اچھی سپورٹ مِل سکتی ہے۔
موضوع کی وُسعت اتنی زیادہ ہے کہ نہ تو ایک کالم اس کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ کوئی ایک شہری اس کے لئے حتمی منصوبہ دے سکتا ہے اس کے لئے اوّلین ترجیح پر اجتماعی سوچ ڈیویلپ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لوگ رواجاً سکیورٹی کو دو انتہائوں پر دیکھتے ہیں۔ یا تو سب کچھ ہر حال میں حکومت کرے یا سکیورٹی ایجنسیوں پرنا اہلی کا لیبل لگا کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ ہمیں اس کے اندر اعتدال اور یگانگت پیدا کرنی ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ آگے نظر آرہا ہے اس کے لئے سکیورٹی ایجنسیاں نااہل نہیں ناکافی ہیں لہذا عوام کو منظّم طریقے سے ان کی پشت پر کھڑا ہونا ہوگا۔ ارباب ِ اقتدار و سیاستدانوں کو دہشت گردوں کی شان میں معذرت خواہانہ روّیہ ترک کر کے اپنی لہو لہان ایجنسیوں اور سسکتے عوام کو غیر مبہم پالیسیاں اور جرات مندانہ قیادت فراہم کرنی ہوگی۔ ہر سانحہ پر کسی محفوظ مقام سے معمول کی مذّمت اور اس کے ساتھ قومی خزانے سے چند سکّے متاثرین کو دینا اب زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔ سالہا سال سے ایجنسیاں اور عوام تو اپنے خون سے وفا کی داستانیں رقم کرتے آ رہے ہیں اب سیاستدانوں اور حکمرانوں کو ذاتی منعفت اور سیاست سے ہٹ کر خود کو ان کا قائد ثابت کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔