ڈاکٹر سٹیفن پی کوہن ایک بین الاقوامی شہرت کا مغربی مفکر ہے جو واشنگٹن ڈی سی کے ایک تھنک ٹینک میں بحیثیت سیز فیلو کام کرتا ہے۔اس کی سوچ اور ریسرچ کا ایک محور کافی عرصہ سے پاکستان اور اس کی مسلح افواج رہی ہیں اور اس موضوع پر اس نے ماضی میں بہت کچھ لکھا ہے۔ایک حالیہ انٹرویو میں اس نے کہا اگلے 5سے 7 سال میں پاکستان میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنے والی پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر فوجی آمریت نظر آئے گی نہ متوازن جمہوریت جلوہ افروز ہوگی اور ایسا کچھ عرصے تک چلے گا چونکہ فوجی حکومت یا اصلی جمہوریت کا ابھی کوئی امکان نہیں۔ مستقبل میں مذہبی انتہا پسندوں یا بلوچ اور دوسرے علیحدگی پسند گروپوں کی کامیابی کا تو بالکل کوئی امکان ہے نہیں۔
سٹیفن کے خیال میں پاکستان کی تین بڑی کمزوریاں ہیں۔ پہلا کمزور حکمرانی ، دوسرا ناقص نظام تعلیم اور تیسرا زمینی اصلاحات کی عدم موجودگی۔ پاکستان جو ایک وقت Moderate اسلامی ریاست سمجھاجاتا تھا آج دہشت گردوں کی آماجگاہ کے طورپر پیش کیاجارہا ہے لیکن سٹیفن نے کہا کہ پاکستان ٹوٹے گا بالکل نہیں۔ ایک مضبوط افواج پاکستان کی موجودگی میں ایسا ممکن ہی نہیں۔ ہاں ایک صورت میں پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے اور وہ ہے معاشی دیوالیہ پن۔اس لئے پاکستان کو علاقے کے ممالک سے تجارتی روابط بڑھا کر جنوب ایشیا کا حصہ بنناچاہئے۔ پاکستان کو چین کے طرز حکومت نہیں بلکہ نظام معیشت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ سٹیفن کے خیال میں ہندوستان کو اپنے ہمسایہ ممالک پر رعب ڈالنے کا جنون تو ضرور ہے لیکن پاکستان اپنے قومی سلامتی کے مفادات کا تحفظ کرنا بھی جانتا ہے۔ سٹیفن سے جب پوچھا گیا کہ کیا ہندوستان کو موسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ دینے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں کسی تبدیلی کا امکان ہے تو اس نے کہا کہ مجھے پتہ نہیں چونکہ بقول سٹیفن
"They (India-Pakistan) can not live with eacth other and they can not live without each other"
یعنی یہ اکٹھے نہ ا لگ رہ سکتے ہیں ۔
پاک امریکہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے سٹیفن پی کوہن نے کہا کہ امریکہ کو چاہئے تھا کہ وہ پاکستان کو بالکل اسی طرح ایک ایٹمی طاقت مانتا جیسے اس نے ہندوستان کو مانا۔ اس سے یہ خدشات دم توڑ جاتے کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کروانے کے درپے ہے اس سے پاکستان کی ایٹمی پالیسی بھی زیادہ جامع انداز میں سامنے آتی۔اس وقت سٹیفن کے خیال میں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پوری دنیا میں سب سے تیز ترقی کر رہی ہے دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ کو چاہئے تھا کہ پاکستان کو تجارت کے زیادہ مواقع فراہم کرتا۔ امریکہ کا دھیان تجارتی سہولیات کی بجائے فوجی امداد کی طرف رہا۔ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ جلدی مکمل ہوناچاہئے۔اس پر امریکی تحفظات ناقابل فہم ہیں۔ امریکی مفکر کے مطابق پاکستانی فوج کو ملکی باگ ڈور نہیں سنبھالنی چاہئے چونکہ معیشت اور سیاست کی فوج کوکوئی تربیت نہیں دی جاتی۔مختلف نظریات کے ایک دوسرے کو نفرت کرنے والے سیاسی لوگ بھی ایک پوائنٹ پر اس وقت اکٹھے ہوجاتے ہیں جب اُن کو اس میں اپنا اپنا سیاسی فائدہ نظر آتا ہے۔ صدر ایوب نے سیاست سیکھنے کی کوشش کی لیکن لینڈ ریفارم اور تعلیم کے سنجیدہ مسائل میں دھنس گئے۔سٹیفن کے مطابق
"The cure for bad democracy is more and better democracy"
یعنی خراب جمہوریت کا علاج ایک زیادہ بہتری جمہوریت ہے آمریت نہیں۔
قارئین تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ گوریلا تحریکیں تب کامیاب ہوتی ہیں جب اس تحریک کیلئے مضبوط وجہ یا Causeہو، ملکی آبادی کا بڑا حصہ اس تحریک کی حمایت کرے ، گوریلا فورس کی تربیت کیلئے پڑوسی ممالک محفوظ کمین گاہیں میسر ہوں اور تحریک کی لاجسٹک، انٹیلی جنس اسلحے اور ذرائع مواصلات کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اربوں ڈالرز کی بیرونی مالی امداد میسر ہو۔ ٹی ٹی پی کے پاس کوئی کاز آف کنفلکٹ یا لڑنے کی وجہ نہیں۔ قبائلی علاقوں کی چند ایجنسیوں کے محدود علاقوں کے علاوہ پورے پاکستان میں کوئی سپورٹ نہیں رواں سال کے آخر تک بیرونی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان میں محفوظ ٹھکانوں ، لاجسٹک، انٹیلی جنس اور اسلحے کی سپلائی اور ڈالروں کی ریل پیل بھی رک جائیگی۔اس کے علاوہ یہ بات بھی سچی ہے کہ گوریلے ریاست کو جانی اور معاشی نقصان تو پہنچا سکتے ہیں لیکن پاکستان جیسی مضبوط ایٹمی ریاست کی طاقت کا مقابلہ بالکل نہیں کرسکتے ۔ پاکستان کی حکومت ساری سیاسی جماعتیں اور عوام یہ بالکل نہیں چاہتے کہ ریاستی عسکری طاقت کو ملک کے اندر باغیوں کے خلاف بے دریغ استعمال کیاجائے۔اس کو اگر دہشت گرد ریاستی کمزوری سمجھ رہے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔ پاکستان ایک مسلمان ریاست ہے جو ایک نظریے کے تحت وجود میں آئی اس میں ہر زبان بولنے والے اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے بالکل اسی طرح برابری کے حقوق ہیں جیسے نبی کریمؐ نے اہل یثرب کو دئیے۔ حالیہ دنوں میں پے درپے دہشت گردی کی وارداتوں کی وجوہات کچھ یوں ہیں۔ اولاً حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کے مورال کو بلند کرنا، دوئم پاکستانی ریاست پر دبائو بڑھا کر مذاکرات کیلئے تیار کرنا اور اپنی باتیں منوانا، سوئم افغانستان سے ہندوستان سمیت بیرونی ممالک کی افواج اور کانٹریکٹروں کے انخلاء سے پہلے ریاست پاکستان کا زیادہ سے زیادہ نقصان کرنا چونکہ بعد میں دہشت گردوں کو بیرونی امداد کافی حد تک بند ہوجائیگی۔ اصلی گوریلا جنگ کی دو اہم وجوہات ہوسکتی ہیں ریاست کو بیرونی تسلط سے نجات دلانا دوسرا اپنی نظریاتی سرحدوں کا دفاع۔ پاکستان کسی کے زیر تسلط نہیں اور اس کی نظریاتی سرحدوں کو آئین میں تحفظ ہے اس لئے موجودہ جنگ بے مقصد ہے۔ قارئین یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ دہشت گرد کا اصل نشانہ وہ لوگ نہیں ہوتے جن کی وہ جان لیتا ہے۔ بلکہ وہ زندہ لوگ ہوتے ہیں جو اس سفاکی کو دیکھتے ہیں اس سارے کھیل کا مقصد ریاستی عوام اور حکومت کو نفسیاتی دبائو میں ڈالنا ہوتا ہے۔اللہ کا شکر ہے پاکستانی قوم کے حوصلے بلند ہیں اور اس کو اپنی فتح پر کامل یقین ہے ہے۔2014 کا سال پاکستان کیلئے اچھی نوید لائیگا۔ پارلیمنٹ متحد ہوکر میثاق جمہوریت کی طرح میثاق امن اور میثاق معیشت پر دستخط کرے ، میڈیا دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کیلئے مثبت مہم چلائے اور سول سوسائٹی دہشت گردی کے خاتمے اور معیشت کی بحالی میں حکومت سے تعاون کرے۔ اللہ کامیابی دے گا۔
سٹیفن پی کوہن نے بالکل ٹھیک کہا کہ پاکستان ٹوٹے گا نہیں(انشاء اللہ) چونکہ ایک بہادر اور زندہ دل قوم اور مضبوط افواج پاکستان کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024