سید میراں حسین زنجانیؒ
محمد اشرف بٹ اسد
برصغیر ایشیاء میں اسلام پھیلانے میں ہمارے اولیاء اکرام کی خدمات قابل صد تحسین ہیں۔ دین مصطفیؐ کی اشاعت و تبلیغ کے سلسلہ میں جو اولیائے اکرام ہندوستان تشریف لائے اور جنہوں نے ظلمت کدہ لاہور اور خاص کر پنجاب اور صوبہ سرحد کے علاقوں میں لاکھوں انسانوں کے دلوں میں نور محمدؐ کی شمعیں روشن ومنور کیں۔ اپنے پاک کردار اور ایمان کی بدولت لاکھوں کو مشرف با اسلام کی ایسے اولیائے اکرام میں ایران کے صوبہ زنجان سے آنے والے بزرگوں میں حضرت فخرالدین المشہور میراں شاہ زنجانیؒ اور صوبہ ہجویر سے حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ سرفہرست ہیں۔ دونوں ایک ہی مرشد کامل کے مرید ہیں۔ حضرت داتا صاحبؒ سے قبل حضرت میراں حسین زنجانیؒ نے لاہور میںاسلام پھیلایا۔ حضرت سید میراں حسین شاہ زنجانیؒ ایران کے تاریخی شہر زنجان کے رہنے ولے تھے۔ اسی شہر کی نسبت سے آپ کو زنجانی کہا جاتا ہے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہیؒ کے خلیفہ اور فیض یافتہ حضرت خواجہ حسن سنجریؒ مصنف فوائد الووائد نے اپنی تصنیف میں لکھا ہے کہ حسین شاہ زنجانیؒ اور سید علی ہجویریؒ ایک ہی مرشد حضرت خواجہ ابوالفضل بن حسن ختلیؒ کے مرید تھے۔ حضرت میراں حسین شاہ زنجانیؒ کے بعد لاہور میں حضرت داتا گنج بخشؒ اپنے پیر و مرشد کے حکم پر لاہور تشریف لائے تھے۔ ایک دن دوران سفر جب آپ اپنے پیرومرشد کے ہمراہ عراق میںتھے۔ حضرت ابوالفضل ختلیؒ نے حضرت میراں حسین شاہ زنجانیؒ کو حکم دیا کہ تم ہندوستان میں جا کر دین متین کی تبلیغٖ کرواور لاہور میں جاکر قیام کرو۔ آپ نے حکم کی تعمیل کے لئے تیاری شروع کی اور اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور جانے کے لئے کوشاں ہوگئے۔ ہندوستان جانے سے پہلے حضرت ابو الفضل ختلیؒ نے آپ کو میراں کا خطاب دیا اور خرقہ خلافت عطا فرمایا ۔ حضرت میراں حسین شاہ زنجانیؒ اپنے مرشد کامل حضرت ابو الفضل ختلیؒ کے حکم سے بمعہ اپنے خاندان زنجانیہ کے اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے افغانستان کے راستے ہندوستان میں تشریف لائے۔ آپ کے ہمراہ آپ دونوں سگے بھائی حضرت سید صدر دیوان یعقوب شاہ زنجانیؒ ( آپ کا مزار میو ہسپتال روڈ میں واقع ہے) اور حضرت سید موسیٰ زنجانیؒ جن کا مزار سلطان پورہ پاک نگر نزد تھانہ مصری شاہ لاہور میں واقع ہے بھی تھے۔ حضرت میراں حسین شاہ زنجانیؒ ۲۶شعبان ۸۴۳ھ میں ایران کے تاریخی شہر زنجان میں پیدا ہوئے، اسی لئے نام گرامی کے بعد زنجانی لکھا گیاہے۔ جب کہ تذکرہ نگا روں نے آپ کا اصل نام فخر الدین لکھاہے زنجان کا محل وقوع اس طرح ہے کہ یہ شہر قدیم و تاریخی ہے اور ایران سے شمال کی جانب، کوہ البرز کے دامن میں واقع ہے۔ اسے وادی بھی کہا جاتاہے۔ یہ علاقہ بہت زرخیز اور حسین تھا، لوگ زیادہ تر کھیتی باڑی پر گزراوقات کرتے، اس طرح لوگ خوشحال تھے اور آبادی میں اضافے کا سبب بنا، حالانکہ اس کے قریب دوقصبے، اندرجان اور سنجان بھی تھے۔ حضرت حسین زنجانیؒ عہد بچپن میںہی اپنے ہم عمر لڑکوں سے مختلف تھے، خاموش طبع، حسین و جمیل اور بہت پیارے تھے۔آپ کے والد گرامی کا نام جناب سید علی محمود تھا۔ جو نہایت زاہد و عابد اور کامل بندے تھے، ایک اچھے عالم دین بھی تھے، اور پیشہ کا شت کاری تھی۔ صبح شام کھیتوں میں محنت کرتے۔ اور ساتھ ساتھ اللہ کے ذکر فکرو عبادت سے کبھی غافل نہ ہوتے تھے، اس لئے روحانیت و تصوف کے اسرارورسے بخوبی اگاہ تھے۔ اور اس زمانے کے کامل ولی اللہ حضرت موسیؒ سے بیعت تھے، اسی وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ سید علی محمود موسویؒ بھی قلمبند فریاما کرتے تھے آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی حضرت مریم صغریؒ تھا بڑی عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں۔ آپ تمام آٹھ بہن بھائی تھے۔ آپ ہی سب سے بڑے تھے، بعد دوبہنیں کلثومؒ و زینب،پھر تین بھائی یعقوبؒ، موسی علیؒ پھر ایک بہن فاطمہؒ تھیں۔ آپ کا حسب نسب مختلف واسطوں سے حضرت امام حسینؓ کے ساتھ ملتا ہے، آپ کے آبائو اجداد اخلافت راشدہ میں بھی رہے اور اس کے بعد عراق شہر میں سکونت اختیار کی، اور حضرت امام موسیٰ کا ظمؒ کی اولاد میں سے سید جعفر برقعیؒ تھے، یہی بزرگ حضور سید میراں حسین زنجانیؒ کے دادا تھے۔ اہل سادات کا یہ سلسلہ زنجانیہ کے نام سے آگے بڑھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم زنجان میںہی حاصل کی، مگر طبیعت میں ہر وقت بے چینی تھی جیسے کسی کی طلب و تلاش ہو۔ کسی رہبر کامل کی جستجو تھی، وہ کاشت کاری میںاپنے والد گرامی کے ہاتھ بھی بٹاتے مگر آپ کو تنہائی بہت پسند تھی، زنجان کے دامن کوہ میں چلے جاتے اور ذکر فکر کی عبادات میں مشغول رہتے تھے۔ چنانچہ والد گرامی نے آپ کو ساتھ لیااور حضرت ختلیؒ کی خدمت میں گازوان پہنچے، حضرت ابو الفضل ختلی اس بات کے منتظر تھے اور بے چینی سے راہ دیکھ رہے تھے، فورا بیعت کرلیا گیا۔ یہ بیعت سلسلہ جنیدیہ کی تھی۔ آپ اپنے مرشد کے ہاں ہی قیام پذیر ہوگئے اور قلیل عرصہ میں طریقت و حقیقت، سلک سلوک کی منازل طلے کرکے اہل فقراء میں شمار ہوگئے۔ حضرت میراں زنجانیؒ کے بارے میں کتب میں مرقوم ہے کہ آپ حد درجہ عبادت گزار تھے اور ہمیشہ عشاء کی نماز کے وضو سے ہی فجر کی نماز ادا کرتے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ تمام رات عبادت میں مشغول رہتے تھے اور دن بھر اپنے مرشد و مربی، حضرت ختلیؒ کی خدمت میں مصروف رہتے تھے وہ ہر وقت اپنے پیر کا خیال رکھتے، ان کی ضروریات زندگی اور رہن سہن کام کاج سے آپ کے ذمہ تھے، آپ نے اپنے مرشد کے ساتھ بہت سے سفر اختیار کئے اور دوران سفر ہر کام خود کرتے، اور اس کے ساتھ ان کے اطورا، طریقت پر توجہ رکھی اور اولیاء اللہ کی پاک صحبت انسان کو برگزیدہ و صالح بنا دیتی ہے، آپ کی ان خدمات کے پیش نظر ہی آپ کے مرشد نے آپ کو میران کا خطاب دیا، میراں سردار کو کہتے ہیں:۔ حضرت ختلیؒ نے آپ کو تکمیل مراتب روحانیت پر خرقہ خلافت عطا فرمایا اورساتھ ہی فرمایا کہ آپ ہندوستان جائیں اور دین اسلام کی اشاعت وتبلیغ کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ جب آپ شہر رے سے نیشا پور پہنچے تووہاں آپ کی ملاقات مجاہد اعظم سلطان محمود غزنوی سے ہوئی جو اس وقت حصول تخت کے لئے کوشاں تھااور غزنوی کی سلطنت اس وقت اس کے بھائی اسماعیل کے ہاتھوں تھی۔ ایک دفعہ آپ نیشا پور کی جامع مسجد میں تقریر فرمارہے تھے کہ تمام کی غرض سے سلطان محمود بھی وہاں پہنچ گیا اوراس نے آپ کا خطاب سنا اور بہت متاثرہوا۔ بعداز نماز آپ سے دعا کاطالب ہوا۔ آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی چند دنوں میں ہرات کے مقام پر سلطان محمود اورسلطان اسماعیل کے درمیان جنگ تخت نشینی ہوئی سلطان محمود نے یہ جنگ جیت لی اوراسماعیل میدان جنگ میں مارا گیا اس طرح غزنی پر سلطان محمود کا قبضہ ہوگیاوہ فوراً آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا سلطان محمود اسلام کی سربلندی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہنا، انصاف کرنا اور خود بھی دین کادامن تھامے رکھنا۔ ’’سلطان محمود نے آپ کو کافی سامان رسداور گھوڑے نذر کئے‘‘ چبہ ہزارہ کا سردار دراب خاں کافی عرصہ سے آنکھوں کے مرض میں مبتلا تھا آپ نے اس کو دم کیا تو وہ تندرست ہوگیا۔ چبہ کے لوگوں نے بہت اصرار کیا مگر آپ یہاں زیادہ دیر نہ رکے کیونکہ آپ کی منزل ابھی بہت دور تھی اس کے بعد ہلمند کے کے مقام پررکے۔ لوگوں نے دعا کے لئے درخواست کی کہ یہاں کا جوتالاب تھاوہی استعمال کے لئے تھا مگر اس کا پانی کھارا تھا آپ نے اسی وقت اپنے رب سے دعاکی تو اس کا پانی میٹھا ہوگیا۔ اس طرح لوگوں کو راستے میں فیوض و برکات تقسیم کرتے آگے بڑھتے چلے جارہے تھے مگر ابھی منزل بہت دور تھی۔ یہاں سے غزنی پہنچے اور منزل بہت دور تھی۔ یہاں سے غزنی پہنچے اور محلہ دارالسلام میں سکونت پذیر ہوئے۔ مگر چند دین سفر کی تھکان دور کر کے پر عازم سفر ہوگئے غزنی کے لوگوں نے بہت اصرار کیا کہ آپ یہاں رک جائیں مگر آپ نے سفر جاری رکھا اور درہ خیبر سے گزرتے ہوئے پشاور پہنچے چند روز رک کر مارگلہ تشریف لائے جب یہاں قیام فرمایا تو لوگوں کی زبانی معلوم ہواکہ یہاں ایک بہت بڑا جادو گر رہتاہے جو منہ کے ذریعے آگ نکالتا ہے اور بہت سے لوگوں کو اس نے گمراہ کر رکھا ہے ۔ آپ اسے ملے اور اسے اسلام کی دعوت دی مگر وہ نہ رضا مند ہوا۔ آپ نے فرمایا ذرا مجھے بھی تو منہ سے آگ نکال کے دکھائو جب اس نے آگ نکالی توآپ نے پھونک ماردی اور آگ ختم ہوگئی باوجود کوشش کے وقت آگ نہ نکال سکا اور حضرت میراں زنجانیؒ سے معافی کا طلب گارہوا۔ آپ نے اسی وقت اسے کلمہ پڑھا کر مسلمان کردیا۔ اس واقعہ کے بعد اس علاقے کے لوگ آپ کے ہاتھ پر دست بیعت ہوگئے۔ حضرت شاہ حسین میراں زنجانیؒ نے سرعام دین کی تبلیغ شروع کردی۔ آپ کا حجرہ ہر وقت غرض مندوں اور عقیدت مندوں سے بھرا رہتا تھا لوگوں کی آمد ورفت کی وجہ سے پانی کا مہیا کرنا دشوار تھا لہذا آپ نے اپنے حجرے کے قریب ہی ایک کنواں کھدوایا مگر اس سے جو پانی نکلا وہ کھارا پانی تھا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت پانی تو کھارا ہے اب کیا ہوگا۔ ساری محنت رائیگاں گئی۔ آپ نے اسی وقت کنویں کے قریب کھڑے ہوکر خدا کے حضور دعا کی اور اوپر کھڑے ہی پانی پر دم کیا وہ پانی میٹھے پانی میں تبدیل ہوگیا۔ لوگوں نے اس کو پیا تو شیریں پانی تھا۔ یہ کرامت بھی جنگل کی آگ طرح شہر میں پھیل گئی۔ لوگ آنا جان شروع ہوئے اور اسی کنویں سے پانی پینے لگے آپ کے ہاں حاضری دینے والوں کو بھی پانی کی سہولت ہوگئی ورنہ دریائے راوی جو قدرے دور تھا وہاں سے پانی لانا پڑتا تھا یہ کنواں آج بھی موجود ہے جسے میراں دی کھوئی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ حضرت شاہ حسین میراں زنجانیؒ کے حالات واقعات کا پتہ اس قدر نہیں ہے اورنہ ہی تفصیلاً کتب میں مرقوم ہیں کہ جو انہوں نے کارہائے نمایاں اس خطہ لاہور میں سرانجام دیئے کیونکہ آپ کے وصال میں مرقوم ہیں کہ جو انہوں نے کارہائے نمایاں اس خطہ لاہور میں سر انجام دیے کیونکہ آپ کے وصال کو تقریباً ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم یہ تو بات سچ ہے کہ انہوں نے دین کی سربلندی کے لئے دن رات ان تھک محنت کی اور بھی بہت کچھ کیا جن کو وقائع نگار قلمبند نہ کرسکے اور اگر کسی نے لکھے بھی تو وہ حوادث زمانہ کی نذر ہوگئے۔ تاہم جو بھی حالات و واقعات پڑھے ان کوایک جگہ اکٹھا کر کے ترتیب دیا ہے اسی طرح آپ کی شادی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے اور بہت سے تذکرہ نگاروں نے یہی قلمبند کر دیا ہے کہ آپ نے شادی نہ کی مگر یہ بات کہاں تک سچ ہے سب سے بہتر جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ آپ کو درود شریف کا ذکر بہت پسند تھا اور لوگوں کو بھی کثرت سے اس کا ورد کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ ایک یہ بھی روایت ہے کہ چندر نامی شخص رہتا تھا جو بہت امیر تھا وہ جذام جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو گیا۔ اس نے اپنی دولت پانی کی طرح بہادی تاہم وہ بہت سے املاک زمینوں اور عالی شان حویلیوں کا تنہا مالک تھا حکیموں، ویدوں کے علاج سے عاجز ہوکر دوائیاں کھاکھا کر تنگ آگیا منتر جنتر بھی کرواچکا، مگر آفاقہ نہ ہوا۔ آخرکار وہ اپنی زندگی سے بے زار ہوگیا۔ بیماری نے جانے کا نام نہ لیا اور وہی بات ہوئی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی۔ یہاں تک وہ کپڑے پہننے سے بھی قاصر ہوگیا جسم سے کون رستا رہتا تھابدن سے ہروقت بدبو آتی رہتی تھی لوگوں نے مشور د یاکہ اسے حضرت میراں صاحبؒ سے دم کروانا چاہئے۔ رام چند کو چارپائی پر لٹا کر کر آپک کے ہاں لایا گیا۔ اس وقت بھی اس کے جسم سے بدبو اٹھ رہی تھی۔ آپ نے اس کو قریب بٹھایا اور پورے جسم پر دم کیا اور پھر پانی ھی دم کرکے پلایا گیا اور ساتھ پانی دم کر کے دیا گیا وہ اس پانی سے غسل کرے اس نے ایسا ہی کیا جیسے آپ نے فرمایا تین دین دم شدہ پانی سے غسل کرکے وہ پوری طرح صحت یاب ہوگیا۔ یہ حضرت میراںؒ کی نظر عنایت کا اثر تھا جو عطائے رب العالمین تھی وہ آپ کے پاس حاضر ہوکر فوراً مسلمان ہوگیا۔ حضرت میراں زنجانیؒ کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ آپ کے دو بھائیوں کا بھی تذکرہ ضروری ہے جو آپ کے ساتھ سفر کی تکالیف برداشت کرتے ہوئے مخص خدا کی خاطر اس خطہ ہندوستان میں تشریف لائے اور لاہور میں ہی وصال پایا اور یہیں محواستراحت ہیں ان کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ دیکھاجائے تو خطہ میں آپ نے دین کا پودا لگایا اس میں آپ کے سارے خاندان کانام آتا ہے اور آفرین ہے آپ کے والدین پرجنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو پردیس بھیج دیااور دوسرے معنوں میں دین پر اپنی اولاد کو اپنے سے جدا وقربان کریدا اور وقف کردیادین اسلام کی اشاعت کے لئے اپنے رب کی خوشنودی کے لئے اس کی رضا میں اولاد کو خدا کے سپردکردیاتھا۔
تعلیمات واقوال زریں
1۔ ایمان کی بنیاد دل کی تصدیق زبان کا اقرار تن کا عمل ہی اسلام کی اصل بنیاد ہے۔ ایساایمان محکم اور محفوظ ہے۔ (2) دنیا ایک دریا ہے اس کا کنارہ آخرت ہے۔ تقویٰ ایک کشتی ہے اور اس کے عمل کے بغیر دنیا کو عبور کرنا مشکل ہے۔ (3)قرآن اور سنت نبوی پر عمل کرنے اور دنیا سے بے رغبت رہنا تبلیغ اسلام کا سب سے پہلے اصول ہے۔ (4) انسان کودنیا میں ایسی دولت اکٹھی کرنی چاہئے جو مرتے وقت ساتھ جائے۔ (5) درویش اور صوفی وہ ہے جو اپنی استقاعت کے مطابق لوگوں کی حاجت پوری کرتاہے ۔ (6) سماع دین سے دور ہونے والوں کے لئے ایک عمل ہے لیکن رقص و سرور اور ڈھول ڈھمکا ایمان کا جزو نہیں بن سکتا۔ آپ اپنے خطابات میں فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کا شریف نہ بنائو اور اپنے پروردگار کا ساتھ نیک عزائم رکھنا۔ اس کا دل سے ذکر کرنا ہی بہتر کام ہے رزق حلال کمانا اور کھانا تمام عبادت کا مخزن ہے ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اچھی عادت نہیں۔ آپ کی باتیں سن سن کر لوگوں نے کافی حدتک فرسودہ رسموں کو ختم کردیا۔ آخری ایام میں حضرت شاہ حسین میراں زنجانیؒ بیمار ہوگئے اور حاکم لاہورراجہ رام چندر جس کا آپ نے اسلام عبداللہ رکھا تھا کے اصرار پر آپ چاہ میراں سے اس کے مقام جوان دنوں یکی گیٹ اور شیرانوالہ گیٹ لاہور کے قریب اندر آباد میں تھا تشریف لے گئے۔ وصال کی رات آپ نے وصیت فرمائی کہ میرا آخری وقت آگیا ہے اور میرا تبلیغی مشن پورا ہوگیا ہے۔ کل صبح سویرے جو شخص سب سے پہلے لاہور میں داخل ہوگا وہی میرا نماز جنازہ پڑھائے گا۔ نیز مجھے لاہور کی مشرقی کنارے پر دفن کیا جائے۔ آپ کا جنازہ لوگ اٹھائے جارہے تھے کہ روایات کے مطابق حضرت داتا گنج بخشؒ نے آپکے جنازے کو روکا اور پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ قطب الاقطاب حضرت میراں حسین زنجانیؒ کا ہے پھر ان کو پتہ چلا کہ مجھ کو یہاں لاہور کیوں بھیجا گیا کہ مسند ولایت خالی ہوچکی ہے چنانچہ انہوں نے خود آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ لحد میں آپ کو اتارا اور دعائے خیر فرمائی۔ حضرت میراں حسین زنجانیؒ کا مزار مقدس چاہ میراں پر رونق آبادی میں موجود ہے۔ بہت خوبصورت ہے اور ہر روز لاتعداد عقیدت مند حاضری دے کر دکھی قلوب کے لئے سکون تلاش کرتے ہیں۔ آج کل آپ کے سجادہ نشین آپ ہی کے خانوادے کے چشم و چراغ حضرت قبلہ عالم محترم المقام پیر سید محمد ادریس شاہ زنجانی ہیں۔ آپ کے عقیدت مندوں کی تعداد بلاشبہ ہزاروں سے تجاوز کر چکی ہے۔ آپ اس وقت حضرت میراں حسین اور حضرت یعقوب شاہ زنجانی کی بھی سجادہ نشین ہیں۔ ایک خلقت آپ سے فیض یاب ہوچکی اور ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت پیر سید محمد ادریس شاہ زنجانی کی خطابت میں ایسی شیرینی رکھ دی ہے کہ جو ایک دفعہ آپ کا خطاب سن لیتا ہے یا آپ کی محفل میں آجاتا ہے وہ نامراد واپس نہیں جاتا۔ حضرت میراں حسین زنجانیؒ کس دور کے بزرگ تھے؟ کیا آپ حضرت داتا گنج بخشؒ کے پیش روا اور پیر بھائی تھے یا نہیں۔ کافی عرصہ اس پر تحریراً اور تقریراًبحث و تمحیص ہوتی رہی ہے۔ ایک طبقہ اس کے حق میں ہے کہ حضرت میراں حسین زنجانیؒ حجرت داتا گنج بخشؒ کے پیش روا اور پیر پھائی تھے اور دوسرا اس خیال کا مخالف ہے۔ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ آپ کسی دور کے بزرگ، کس کے پیش رو، کس کے مرید اور کس کے پیر بھائی تھے۔ میرا مقصد صرف بزرگان دین کے حالات زندگی پیش کرنا ہے کہ انہوں نے کس طرح مشقیں اٹھا کر اپنے رب کو راضی کیا اور ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ میں بذات خود اس گروہ کا ہمنوا ہوں جو یہ کہتا ہے کہ آپ حضرت داتا گنج بخشؒ کے پیشرو اور پیر بھائی تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تصدیق کرنیوالے حضرت خواجہ حسن سنجریؒ مصنف ’’فوائد الفوائد‘‘ اور تاریخ پنجاب کے مصنف حضرت میاں میر لاہوریؒ کے مرید خاص شہزادہ دارہ شکوہ ہیں جو بزرگوں کی خدمت میں رہنے والے اور ان کے مزاج آشنا تھے۔ ان سے توقع عبث ہے کہ وہ کوئی غلط بات بزرگان دین سے منسوب کریںگے۔ علاوہ ازیں دونوں بزرگوں کے مرشد حضرت ابوالفضل بن ختلیؒ تھے۔ ملک شام سے آپ سیدھے زنجان اپنے گھر پہنچے تو بھائی موسیٰ زنجانیؒ نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ آپ نے جب والدین کو مرشد کے حکم سے مطلع کیا تو انہوں نے بصدخوشی کہا کہ نیکی کے کام میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ آپ کے دو چھوٹے بھائی حضرت موسیٰ زنجانی وحضرت یعقوب زنجانی معہ اہل وعیال ساتھ چلنے پر تیار ہوگئے۔ قریب شام یہ چھوٹا سا قافلہ سوئے ہندوستان چل پڑا۔ بائیس میل کی مسافت پر ایک قصبہ آیا جس کا نام تو نہ تھا یہاں اکثریت زرتشت لوگوں کی تھی۔ آپ نے انہیں اکٹھا کیا اور دعوت اسلام دی ایک ماہ قیام کے دوران صرف تین لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ کئی شہروں، قصبوں، بستیوں سے ہوتے ہوئے اور طویل دشوار گزار راستے طے کرنے کے بعد آپ جلال آباد پہنچے۔ خان یار اس علاقے کا حاکم تھا۔ اس کی لڑکی کو مرض کوڑھ تھا۔ جب علم ہوا کہ شہر زنجان کا بہت بڑا ولی اللہ آیا ہے تو وہ حاضر خدمت ہوا بڑی محبت سے اہل قافلہ کی تواضح کی اور بیٹی کی بیماری کا ذکر کیا۔ آپ نے پانی پر دم کرکے دیا اور فرمایا اس میں اور پانی ملاکرنہانے اللہ فضل کرے گا چنانچہ لڑکی دنوں میں صحت یاب ہوگئی۔ سارے شہر میں دھوم مچ گئی۔ بے شمار لوگ فیض و برکت کے لئے دراقدس پر حاضر ہونے لگے۔ جب آپ لاہور دریائے راوی کے کنارے پہنچے تو شام کا وقت تھا۔ دریا طغیانی تھی۔ دوسرے دن بذریعہ کشتی لاہور میں وارد ہوئے بذریعہ کشف مرشد نے حکم دیا‘‘ بیٹا یہی تیری منزل ہے‘‘ آپ نے موسیٰ زنجانیؒ کو شمالی جانب، اور یعقوب زنجانی کو شہر کے جنوبی حصے میں قیام کرنے کو کہا اور خود مشرقی حصے میں ٹھہرے جسے آج کل چاہ میراں کہتے ہیں۔ ان دنوں لاہور کفر کا گڑھ تھا۔ مندروں کے پروہٹ دھرم کے نام پر گلچھرے اڑارہے تھے اور ہر طرح کی بے حیائی میںملوث تھے۔ اخلاقی برائیوں نے ڈیرے جمارکھے تھے، غرضیکہ مذہب اور دھرم کے نام پر عوام پر عرصہ حیات تنگ اور تاریک ہوتا جارہا تھا۔ کفر و الحادوشرک کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے جہاں حضرت میراں حسین زنجانیؒ اور آپ کے بھائیوں نے اللہ کی وحدانیت کے چراغ روشن کرنے تھے اور لوگوں کو ظلمت سے روشنی کی طرف لانا۔ حق تبلیغ ادا کرنے کے لئے اولاً آپ نے یہاں کی زبان سیکھی۔ پھر گلی گلی محلے محلے لوگوں کو دعوت حق دینے لگے۔ بسا اوقات چند ایک لوگوں کو یکجا اکٹھا کرکے اسلام کی حقنیت کو قبول کرنے کی تلقین فرماتے۔ نتیجیتاً پروہت اور دوسرے اکابرین اپنے لئے خطرہ محسوس کرنے لگے تھے۔ لہذا انھوں نے حضرت سیدنا زنجانیؒ کے پیچھے بچے لگا دیئے جو آپ کو پاگل کہتے۔ مذاق اڑاتے اور روڑتے مارتے لیکن آپ کے پائے استقلال میں کوئی کمی نہ آئی۔ اس طرح تین سال عرصہ گزر گیا تو مرشد کے کہنے کے مطابق آپ نے ہر جمعۃ المبارک کو تبلیغ کرنا شروع کردی۔ دائم المرض افراد اور دیگر بیمار لوگ بغرض شفا آنے لگے۔ آپ پانی پر دم کرکے دیتے تو شفایاب ہو جاتے۔ اس طرح آپ کی روحانیت کے چرچے ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ لوگ اسلام قبول کرنے لگے جن میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا۔ کرامات دلیل بزرگی نہیں لیکن بعض بزرگان دین سے خوراق و کرامات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ جنہیں دیکھ کر عقیدت مندوں کے ایمان بااللہ میں ترقی ہوتی ہے اور غیروں کو انہیں ماننے کے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ دو ہندوئوں کو کئی دن تک دعوت اسلام دیتے رہے۔ ایک دین انہوں نے سوچا کہ یہ بوڑھا خواہ مخواہ ہمارا دماغ کھاتا ہے اس کا کام تمام کردینا چاہیے۔ چنانچہ ایک شب وہ چھپ کر بیٹھ رہے۔ نماز عشاء کے بعد جب آپ ذکر و اذکار میں مصروف ہوئے تو وہ چھروں سے آپ پر حملہ آور ہوئے تو امرربی سے اندھے ہوگئے۔ واپس جانے لگے تو بینا ہوگے۔ دوبارہ ارادہ قتل کیا تو پھر کور چشم ہوگئے، اس طرح دوچار بار ہوا تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا مقبول بندہ ہے۔ لہذا کلمہ پڑھ کر فوراً مسلمان ہوگئے اور تا حیات خدمت بجا لاتے رہے۔ حضرت میراں حسین زنجانیؒ کا قدمبارک دراز اور جسم فربہ تھا۔ کثرت عبادت کے نور سے چہرہ قدرے مائل نہ زردی تھا۔ آنکھیں بادہ عشق الہی سے مخمور رہتی تھیں۔ جولباس ملک جاتا زیب تن فرما لیتے تھے۔ زیادہ تر کھدر کے کپڑے پہنتے تھے۔ آپ نے شادی نہیں کی تھی، ساری عمر عبادت و تبلیغ میں بسر کردی۔ اس شہنشاہ ولایت کا کل اثاثہ ایک چٹائی ،لحاف کھانے پکانے کے چند برتن، مٹی کے ایک دوگھڑے او ر لوٹے اور چند کپڑے پہننے کیلئے تھے۔ لیکن دلوں پر حکمرانی کرتے تھے۔اپنے پرائے ان کے اخلاق حسنہ اور روحانی زندگی کا دم بھرتے۔ جو بھی دروازے پر آیا فیضیاب ہوکر لوٹا لیکن خود فقرو فاقے میں بسرکی۔ آپ نے چوالیس سال لاہور میں قیام فرمایا اور کافرستان میں اسلام کے چراغ روشن کئے۔ اللہ کے فضل و کرم سے آپ کے روشن ہوئے چراغوں کا یہ نتیجہ ہے کہ آج نہ صرف لاہور بلکہ پاک و ہند میں کروڑوں مسلمان آباد ہیں جس میں ان سے نفوس قدسیہ کا ہاتھ ہے جو مختلف مقامات پر آسودہ خواب ہیں اور لوگ آج بھی ان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیوض و برکات سے متمتع ہوتے ہیں۔ قدیم تاریخ لاہور کی کتب میں موجود ہے کہ حضرت خواجہ سید معین الدین چشتی اجمیریؒ نے تین روز تک چلہ کشی کی ہے جبکہ معین الہند کتاب کے مصنف ڈاکٹر ظہور شارپ نے لکھا کہ خواجہ سید معین الدین چشتی اجمیریؒ نے لاہور میں قیام کے درمیان حضرت میراں حسین زنجانیؒ سے ملاقات کی تھی۔ آپ کے بارے میں حضرت پیر سید محمد افضل گوندیؒ پیر کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔
آفتاب فیض عالم ماہتاب اولیاء
سینئہ میراں حسین ام الکتاب اولیاء
ہندوستان کے بیشمار اولیاء کرام نے بھی آپ کے آستانہ عالیہ پر حاضری دیتے رہے ہیں جن میں حضرت میاں میر لاہوریؒ ، حضرت مادھولال حسینؒ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر، بابا بلھے شاہؒ ، حضرت شاہ عنایت قادریؒ، میاں شیر محمد شرقپوریؒ ، بابا شاہ کمالؒ اور شاہ چراغؒ اور حضرت خواجہ طاہر بندگیؒ شامل ہیں۔ تاریخ لاہور کے مصنف رائے بہارد کنہیالال کے مطابق اس نے خود حضرت سید میراں حسین زنجانیؒ کے دربار میں حاضری دی اور خود دیکھا کہ حضرت کے مزار کے سرہانے رکھے گئے چراغ دان رات ہوتے ہی چراغ خود بخود روشن ہوگئے حالانکہ ان میں کوئی تیل وغیرہ نہ تھا۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے فیض عام اور کرامات بہت مشہور ہیں۔ آپ کا سالانہ عرس مبارک گزشتہ کئی سالوں سے ربیع الاول شریف کے مہینہ کے آخری ہفتہ۔ اتوارکو چاہ میراں لاہور میں منایا جاتا ہے جبکہ سالانہ غسل شریف 12ربیع الاول کو رات دو بجے ہوتا ہے درگاہ پر محکمہ اوقاف پنجاب کا 1961سے کنٹرول ہے۔ سالانہ عرس مبارک کی تمام رسومات امور مذہبیہ کمیٹی اور سجادہ نشین صاحبزادہ پیر سید محمد ادریس شاہ زنجانی ادا کرتے ہیں۔ امسال آپ کا 1005ء واں سالانہ عرس مبارک مورخہ 25-26جنوری 2014ء بروز ہفتہ اتوار 23-24ربیع الاول چاہ میراں لاہور میںمنایا جا رہا ہے۔ پہلے یہ چاہ میراں کا عرس کہلاتا تھا لیکن اب یہ پورے پاکستان کا عرس بن چکا ہے۔ ہزاروں زائرین خواتین و حضرات عرس کی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں اور آپ سے روحانی فیوض و براکات حاصل کرتے ہیں۔