پاکستان تحریک انصاف عید کے بعد ملک گیر احتجاجی تحریک کا ارادہ رکھتی ہے- یہ تحریک حکومت کے خلاف ہو گی یا اسٹیبلشمنٹ کے؟ ابھی واضح نہیں- تاہم آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ تحریک کامیاب ہو گی یا ناکامی اس کا مقدر بنے گی- اس وقت پی ٹی آئی کی اپنی صفوں میں بہت زیادہ انتشار اور خلفشار ہے- جماعت کے اندر ایک دوسرے کے خلاف سخت دشنام طرازی ہو رہی ہے- صفِ اول کے بہت سے رہنما منظر سے غائب ہیں، جو نظر آ رہے ہیں وہ بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں- مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی میں سخت دھڑے بندی ہے- دو واضح گروپ بھی بن چکے ہیں جن میں سے ایک سیاسی جبکہ دوسرا وکلاء گروپ کے نام سے سامنے آیا ہے- معاملات اب بند کمروں سے نکل کر ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز تک پہنچ گئے ہیں- سب جانتے ہیں کہ تحریک انصاف میں کیا چل رہا ہے، کیا ہو رہا ہے؟
پی ٹی آئی کے بہت ہی سرگرم رہنما شیرافضل مروت کو جماعت سے نکال دیا گیا ہے- اور اْن کی بنیادی رکنیت بھی منسوخ کی جا چکی ہے- اْن سے قومی اسمبلی کی سیٹ سے بھی مستعفی ہونے کا کہا جا رہا ہے- یہ مطالبہ کوئی اور نہیں پی ٹی آئی ہی کے سرکردہ رہنما اْن سے کر رہے ہیں- لیکن شیر افضل مروت نے مستعفی ہونے سے صاف انکار کر دیا ہے- جماعت میں اس وقت کوئی رہنما اگر بہت زیادہ سرگرم ہے تو وہ سلمان اکرم راجہ اور گوہر خاں ہیں- دونوں وکالت کے پیشے سے وابستہ اور جماعت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں- بیرسٹر گوہر خاں کے پاس پارٹی کی چیئرمین شپ جبکہ سلمان اکرم راجہ کے پاس سیکرٹری جنرل کا عہدہ ہے- پارٹی میں سیاسی حیثیت رکھنے والے بہت سے رہنما کافی پیچھے چلے گئے ہیں- فوقیت صرف وکلاء گروپ کو حاصل ہے- سرفہرست ناموں میں سلمان اکرم راجہ، گوہر خاں اور فیصل چودھری شامل ہیں- اگرچہ حامد خاں بھی سینئر اور ایک منجھے ہوئے وکیل ہیں، پارٹی کا حصہ بھی ہیں- تاہم پارٹی معاملات میں اْن کا کوئی عمل دخل نہیں-
حیران کن امر یہ ہے کہ بہت سے رہنما ایک دوسرے کو اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ اور ٹاؤٹ کہہ رہے ہیں- بانی پی ٹی آئی جو اس وقت جیل میں ہیں انہیں 190 ملین پاؤنڈ کیس میں 14 سال طویل قید کا سامنا ہے- یہ سزا ٹرائل کوٹ کی جانب سے دی گئی ہے- جس کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں تاحال زیر سماعت ہے- دیکھتے ہیں بعد از سماعت اور فیصلہ کیا حکم سامنے آتاہے- عدالت اْن کی سزا ختم کرتی ہے یا برقرار رکھتی ہے؟ آنے والے دنوں میں تمام صورت حال سامنے آ جائے گی – کہ عدالتی فیصلے سے کیا اْن کی رہائی ممکن ہو گی یا انہیں لمبی مدت کے لیے جیل کاٹنی پڑے گی-
تاہم بات یہیں ختم نہیں ہوتی- 9 مئی کے واقعات بھی بانی پی ٹی آئی کے تعاقب میں ہیں جن کی نوعیت بہت سنگین ہے- اب فیصلہ ہونا باقی ہے کہ 9 مئی کے ٹرائل سول کورٹ میں ہوں گے یا ان مقدمات کو ملٹری کورٹ میں بھیجا جائے گا- خوف اور وحشت کے مہیب سائے ہیں جواڈیالہ میں چھائے ہوئے ہیں اگرچہ بانی پی ٹی آئی کے متعلق مشہور ہے کہ بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہیں لیکن ملٹری کورٹ کے خوف نے اْن کے بھی اوسان خطا کر دئیے ہیں- بانی کو جیل میں اپنے وکلاء سے یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ملٹری کورٹ میں 9 مئی کے کیس لگ گئے تو بچنے کا کوئی چانس نہیں رہے گا-
مشہور مقولہ ہے انسان جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا ہے- اقتدار کا نشہ اکثر انسان کو لے ڈوبتا ہے- اور وہ سیدھا راستہ چھوڑ کر انجانی راہوں کا مسافر بن جاتا ہے- سدا اقتدار کبھی کسی کا نہیں رہا-بانی کو 2018ء میں اقتدار ملا- جیسے ملا وہ ایک الگ کہانی ہے- اکثر کا خیال تھا کہ بانی ملک کے لیے کچھ اچھا کریں گے لیکن پنکی اور گوگی لے ڈوبے- اْن کی کرپشن کی ایسی داستانیں ہیں جو آج ہر کسی کی زبان پر ہیں-
بہت کوشش ہوئی- پی ٹی آئی نے ہر طرح کے جتن کئے- جلسے ہوئے، جلوس نکالے، احتجاج کے لیے ڈی چوک کو محور و مرکز بنایا- خیال یہی کیا جا رہا تھا کہ خیبر پختونخوا سے، جہاں خود پی ٹی آئی کی حکومت ہے کافی تعداد میں لوگ نکلیں گے- بہت بڑا جمِ غفیر ہو گا جو ڈی چوک پہنچے گا- پھر حکومت کو لازمی طور پر گھر جانا پڑے گا،مگر ایسا کچھ نہیں ہوا-
یہ 26 نومبر 2024ء کی ایک سرد تاریک رات تھی- طے پایا تھا کہ اس رات علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کی قیادت میں ایک بڑا قافلہ صوابی سے عازمِ سفر ہو کر خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع سے ہوتا ہوا جب ڈی چو ک کی طرف بڑھے گا تو اس میں پنجاب اور سندھ سے آنے والے قافلے بھی علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کے مرکزی قافلے سے آ ملیں گے- جس کے بعد حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا اور ڈی چوک پہنچنے سے پہلے ہی بازی جیت لی جائے گی- مگر ایسا نہ ہو سکا- پی ٹی آئی کے سب خواب اْس وقت چکنا چور ہو گئے جب علی امین اور بشریٰ بی بی احتجاجی قافلے کو ڈی چوک کے گردونواح میں چھوڑ کر خود رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے موقع سے راہِ فرار اختیار کر گئے- کچھ لوگ کہتے ہیں علی امین اسٹیبلشمنت کے آدمی ہیں تاہم بانی پی ٹی آئی علی امین کی وفاؤں پر پورایقین رکھتے ہیں- حالانکہ کچھ لوگ اڈیالہ جا کر بانی کو بتاتے بھی ہیں کہ علی امین پچ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں یعنی اْن پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا- اب بانی کس کس کا اعتبار کریں- کون قابل بھروسہ ہے، کون نہیں؟ بانی کے لیے یہ سوچنا اور سمجھنا بہت مشکل ہو گیا ہے – فیصل واڈا نے تو صاف صاف بتا دیا ہے کہ تحریک انصاف ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے- عید کے بعد کچھ نہیں ہونے والا- جس تحریک اور گرینڈ الائنس کی بات ہو رہی ہے- اْس کو سب بھول جائیں- فیصل واڈا بہت ہی باخبر سیاسی شخصیت ہیں- انہوں نے اب تک جو بھی پیش گوئیاں کی ہیں وہ سب کی سب حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہیں – لہٰذا کہہ سکتے ہیں کی پی ٹی آئی کے گرینڈ الائنس اور احتجاجی تحریک کے متعلق اْن کی جو پیش گوئی ہے کہ کچھ نہیں ہونے والا- اْسے بھی واڈا کی ماضی کی پیش گوئیوں کے تناظر میں سچ اور درست ہی مان لینا چاہیے-
بانی پی ٹی آئی ایک طرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں اور خط پر خط بھی لکھے جاتے ہیں اب تو چوتھے خط کی بھی بات ہو رہی ہے کہ لکھا جائے گا- مگر اسٹیبلشمنٹ نے بانی کے خطوں کو "انتظار" کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے- جس کا مطلب ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں کوئی چھوٹ اور رعایت دینے کے لیے تیار نہیں- جہاں تک کیسز کی بات ہے تو اْن میں بھی بانی کے لیے بچنے کے کوئی چانسز نہیں- انہوں نے جو کیا ہے اْس کی سزا تو انہیں ملنی ہی ہے- اب جنرل فیض اور ثاقب نثار تو موجود نہیں جو اْن کی مدد کو آئیں گے- حالات بدل گئے ہیں- بانی پی ٹی آئی جن مشکل حالات سے دوچار ہیں مستقبل میں اس سے بھی زیادہ بْرے حالات کا انہیں سامنا کرنا پڑسکتا ہے- جنرل (ر) فیض بھی فوجی حراست میں ہیں- جہاں اْن کے خلاف فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی ہو رہی ہے- جس میں 9 مئی بھی شامل ہے- 9 مئی کی بات آتی ہے تو اْ س سے بانی پی ٹی آئی کی شمولیت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا- حقیقت کسی سے بھی چھپی ہوئی نہیں رہی کہ 9 مئی کا اصل ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ صرف دو، تین مہینوں ہی کی بات ہے، ہم بہت کچھ ہوتا دیکھیں گے-
کیا اپوزیشن کا گرینڈ الائنس بن سکے گا؟
Feb 24, 2025