نئی حکومت سے عوام کی توقعات


پاکستان میں 2008 سے 2024 تک تسلسل کے ساتھ 4 انتخابات ہو چکے ہیں- سیاسی جماعتیں انتخابی وعدے کرتی ہیں اور اقتدار میں آکر ان کی ترجیحات تبدیل ہو جاتی ہیں- 4 انتخابات کے بعد غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے-
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
دنیا امید پر قائم ہے لہٰذا عوام نے ایک بار پھر سیاسی جماعتوں سے امید باندھ لی ہے- انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں نئی حکومتوں کی تشکیل کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان مشاورت جاری ہے- عالمی جمہوری اصولوں اور روایات کے مطابق لازم تھا کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جاتا - سپریم کورٹ سٹے آرڈر جاری کرتی کہ جب تک کھلی اور ننگی دھاندلی کے الزامات کا فیصلہ نہیں ہو جاتا ایک ماہ کے لیے حکومت سازی کا کام روک دیا جائے- پاکستان میں چونکہ جمہوریت ہی نام نہاد ہے اور آئین کی روح قید ہے اس لیے عوام کے مینڈیٹ کی پرواہ نہیں کی جاتی- مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے درمیان حکومت سازی کا فارمولہ طے پا چکا ہے- اس فارمولے کے مطابق میاں شہباز شریف وزیر اعظم اور آصف علی زرداری صدر پاکستان ہوں گے- 
جب آصف علی زرداری صدارت کے عہدے پر فائز ہو جائیں گے تو پارلیمانی سیاست کے نئے دور کا آغاز ہوگا- 2024 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات نے سیاسی ماحول کو اشتعال انگیز بنا دیا ہے- نئی حکومت کا پہلا فرض یہ ہونا چاہیے کہ وہ سیاسی ماحول کو پر امن اور سازگار بنانے کے لیے مثبت اور تعمیری اقدامات اٹھائے - بلیم گیم کے شیطانی عمل کو ختم کیا جائے اور جمہوری اصولوں کے مطابق اپوزیشن کو اہمیت دی جائے اور اپوزیشن بھی تنقید برائے تنقید سے گریز کرتے ہوئے تنقید برائے اصلاح کی جانب آ جائے - عوام کی منتخب اسمبلی کو ربڑ سٹیمپ بنانے کی بجائے وزیر اعظم قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہفتہ میں دو بار اراکین اسمبلی کے سوالات کے جوابات دیں-پارلیمانی کمیٹیوں کو مضبوط بنایا جائے اور سرکاری ملازمین کو ان کمیٹیوں کے سامنے جوابدہ بنایا جائے -
انتخابی مہم کے دوران مہنگائی نمبر ون ایشو رہا مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں- گڈ گورننس کو پہلی ترجیح بناکر سمگلنگ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں - آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے- پولیس گڈ گورننس کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہے- پولیس کو مستعد اور غیر سیاسی بنانے کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں تیار کی گئیں پولیس ریفارمز 2010 کو فی الفور نافز کیا جائے-انتخابی وعدوں کے مطابق 300 یونٹ بجلی فری کی جائے- پٹرول اور گیس کی قیمتوں کو عوام کی قوت خرید کے مطابق کیا جائے-76 سال کے بعد بھی پاکستان تعلیم کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہے- تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے سکولوں سے باہر 3 کروڑ بچوں کو سکولوں میں داخل کرکے انہیں مفت معیاری تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں- تعلیمی بجٹ 5 فیصد کیا جائے- میٹرک کے طلبہ کو ہنر سکھایا جائے تاکہ وہ پارٹ ٹائم کام کرکے گھریلو آمدنی میں اضافہ کر سکیں- عوام کو قرضوں کی معیشت سے نجات دلانے کے لیے غیر ترقیاتی اخراجات کم کیے جائیں- پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کو ختم کیا جائے- بڑی گاڑیوں کی بجائے چھوٹی گاڑیاں استعمال کی جائیں- سول اور عسکری ملازمین کی تعداد کم جائے- سرکاری ملازمین کو صرف تنخواہیں دی جائیں اور دیگر تمام مراعات اور الاو¿نس ختم کیے جائیں- کابینہ کا سائز آئین کے مطابق رکھا جائے-
بلدیاتی ادارے جمہوریت کی بنیاد ہوتے ہیں- بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 90 روز کے اندر کرانے اور مقامی حکومتوں کو سیاسی انتظامی اور مالی طور پر مستحکم بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے تاکہ عوام کے 90 فیصد مسائل ان کے گھروں کی دہلیز پر حل کیے جاسکیں - عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کے لیے عدالتی اصلاحات کی جائیں - سول مقدمات کا فیصلہ 3 ماہ کے اندر اور کریمنل مقدمات کا فیصلہ 6 ماہ کے اندر کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے - سول ملٹری تعلقات کو متوازن بنانے کے لیے قانون سازی کی جائے اور سیاسی ریڈ لائن کا تعین کیا جائے- پاپولیشن کنٹرول زراعت صنعت اور ہیومن ریسورس پر خصوصی توجہ دی جائے- صوبوں کے وزرائے اعلیٰ دہلی کا دورہ کرکے عام آدمی پارٹی کے کامیاب ماڈل سے سیکھیں اور وزیر اعلیٰ اروند کجریوال سے ملاقات کرکے ان کے تجربات اور مشاہدات سے استفادہ کریں جس طرح چین کے دوسرے عظیم لیڈر ڈینگ زیاﺅ پنگ نے سنگا پور کا دورہ کرکے عظیم لیڈر لیکوان سے سیکھ کر چین کو دنیا کا عظیم ملک بنا دیا تھا- 
پنجاب کی نامزد وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف بلند بانگ دعوے تو کر رہی ہیں ان کو پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے وہ اگر نیک نیتی اور سیاسی عزم کے ساتھ کام کریں تو پنجاب دنیا کے لیے ماڈل صوبہ بن سکتا ہے- نئی وفاقی اور صوبائی حکومتیں اگر پانچ سال 25 کروڑ عوام کے لیے وقف کر دیں تو پاکستان سیاسی اور معاشی استحکام کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے-
اے خاک وطن اب تو وفاو¿ں کا صلہ دے
میں ٹوٹتی سانسوں کی فصیلوں پہ کھڑا ہوں
چراغ بجھتے رہے اور خواب جلتے رہے
عجیب طرز کا موسم میرے وطن میں رہا

ای پیپر دی نیشن