قومی اسمبلی : حکومتی ،اپوزیشن ارکان کا ایک دوسرے کیخلاف احتجاج، نعرے

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) منگل کے روز قومی اسمبلی میں نجی کارروائی کے دن مجموعی طور پر مفاد عامہ کے نو بل پیش کئے گئے۔ ایوان زیریں نے تین بل منظور کر لئے جب کہ چھ بل متعلقہ مجالس قائمہ کے سپرد کر دیئے گئے۔ سود کے کاروبار پر پابندی، بچوں پر تشدد کی ممانعت سمیت تین بل منظور ہوئے جب کہ معذور افراد کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دینے، پانی کو آلودہ کرنے والے شخص کو 3سال تک قید ، بلوغت کی عمر18سال مقرر کرنے سمیت چھ مجالس قائمہ کے سپرد ہوئے۔ ایم این اے نفیسہ عنایت اللہ خٹک نے وفاقی دارالحکومت کی حدود کے اندر دودھ اور دودھ کی مصنوعات کی پیداوار اور مارکیٹوں کو منضبط کرنے کا بل (محفوظ دودھ اور ڈیری مصنوعات کا بل2021ئ) پیش کیا۔ حکمراں جماعت کے محمد ثناء اللہ خان مستی خیل نے (اسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہ جات ممانعت برائے سود بابت نجی قرضہ جات بل 2020ئ) منظوری کیلئے پیش کی۔ ڈپٹی سپیکر نے بل کو رائے شماری کے بعد متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن سید جاوید حسین نے (الکرم انٹرنیشنل انسٹیٹوٹ بل 2020ئ) منظوری کیلئے پیش کیا جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دے دی۔ بچوں کو سزا دینے سے ممانعت کے متعلق بل پر انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ ہمیں اس بل پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ حکومتی ترمیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ترمیم کی بدولت اب شکایت براہ راست عدالت میں درج کی جا سکے گی۔ منگل کے روز حکومت اور اپوزیشن کے ارکان ایک بار پھر ایک دوسرے کے سامنے آ گئے۔ طرفین نے مخالفانہ نعروں والے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی اور ایوان میں ہنگامہ آرائی کی وہی صورتحال پیدا ہو گئی جس سے روکنے کیلئے سپیکر اسد قیصر ارکان کو سمجھاتے رہے۔ سپیکر نے کہا ہے کہ یہ معزز ایوان ہے۔ قواعد وضوابط کی پاسداری کرنے میں ہی سب کی عزت ہے۔ تمام ارکان اپنی سائیڈ پر رہیں۔کوئی ایک طرف سے دوسری طرف نہ جائے۔ سپیکر کے سمجھانے بجھانے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اپوزیشن کے پلے کارڈز پر مہنگائی کے خلاف نعرے درج تھے اور حکومتی ارکان نے حلیم عادل شیخ کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا۔ اپوزیشن ارکان نے مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور سلیکٹڈ حکومت نامنظور کے پلے کارڈز لہرائے۔اسد قیصر نے شمالی وزیرستان میں دو دن پہلے چار خاتون سماجی کارکنوں پر حملے اور ان کی شہادت پر خیبر پی کے کے چیف سیکرٹری سے ایک ہفتہ کے اندر رپورٹ طلب کرلی ہے۔