چین پاکستان کو شہد پروڈکشن ٹیکنالوجی فراہم کرنے کیلئے تیار ہے،لی ڈِنگ شن
اسلام آ باد ( نوائے وقت رپورٹ ) بیجنگ آوجنڈا بی پروڈکٹس کوآپریٹو کے چیئرمین لی ڈنگ شن نے کہا ہے کہ چین پاکستان کو شہد کی پیداواراور پروسیسنگ ٹیکنالوجی مہیا کرنے کیلئے تیار ہے ، یہ ٹیکنالوجی بہت پائیدار ہے اور ہمارے صارفین اسے سراہا تے ہیں۔ چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق کہا جاتا ہے کہ شہد پروسیسنگ ٹیکنالوجی میں شہد کے خام مال کی پروسیسنگ کی خاصیت ہوتی ہے ، جس میں شہد فلٹریشن ، جراثیم سے پاک اور درجہ حرارت کنٹرول شامل ہیں۔ لی ڈنگ شن نے کہا کہ مکھیوں کے ذریعے اکٹھا کیا گیا شہدچھتے میں بھرا ہو تا ہے لیکن اس میں نمی زیادہ ہوتی ہے۔ لہذا ہم شہد ڈرائر کے ذریعہ نمی کو دور کرتے ہیں ، جس میں شہد کو بالائی چیمبر اور خالی برتن کو نچلے چیمبر میں رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین دنیا کا سب سے بڑاشہد کا پروڈیوسر اور برآمد کنندہ ہے۔ اس کے علاوہ چین میں بھی چھتے کے موم جیسی شہد کی مکھیوں کی مصنوعات کی درآمد کی مانگ ہے ۔ چین کی موم کی پیداوار مقامی مارکیٹ کی طلب کو پورا کرنے کے لئے بہت کم ہے۔چائنہ بی پروڈکٹس ایسوسی ایشن کے صدر یانگ رونگ نے کہا کہ ہمیں ہر سال برازیل ، ترکی اور ایران سے موم برآمد کرنا پڑتی ہے۔ اگر پاکستان کی شہد کی مکھیوں کی صنعت حکومتی تعاون سے تیزی سے ترقی کر سکتی ہے تو مستقبل میں پاکستانی موم چینی منڈی کے لئے بہت پرکشش ہوگا۔چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق دریں اثنا پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل(پی اے آر سی) کے چیئرمین ڈاکٹر محمد عظیم خان کا کہنا تھا کہ ان کا شہد محض 20 ڈالر یا 25 ڈالر فی کلو میں فروخت ہوتا ہے ، لیکن جب یہ دوسرے ممالک میں پیک کیا جاتا ہے تو اس کی قیمت 100 ڈالر ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا اگر ہم لیب اورسر ٹیفیکیشن سسٹم قائم کرسکیں اور انتظامیہ اور نگرانی کی پالیسیاں نافذ کرسکیں تو صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ انہوں نے پاکستانی شہد کی صنعت کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ایک پاکستانی شہد ڈسٹریبوٹر زوہیب نے کہا قرنطینہ کی وجہ سے پاکستانی شہد کو یورپ اور امریکہ برآمد کرنے سے پہلے عرب ممالک میں OEM سروس سے گزرنا پڑتا ہے۔ نیشنل بینک آف پاکستان کے مطابق پاکستان نے جولائی سے نومبر 2020 تک 6.351 ملین ڈالرکا قدرتی شہد برآمد کیا ، جس میں سے بیشتر سعودی عرب کو برآمد کیا گیا ، جو 4.275 ملین ٹن تک پہنچا اور پاکستان کی کل شہد کی برآمدات کا 67 فی صد۔ شہد کی نشاندہی کرنے والی ٹیکنالوجی کی کمی سے پاکستانی شہد کی مکھیاں پالنے والوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔ شہد کی مکھیوں کے پالنے والوں کے پاس شہد کی ٹیسٹینگ کٹس نہیں ہیں اور پاکستان کے پاس ایسی لیبارٹری نہیں ہے جو شہد کی جانچ کے سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے۔ نسرین مظفر نے کہا جب مکھیاں پالنے والے ساتھی غیر مصدقہ شہد برآمد کرتے ہیں تو انہیں ضبط جیسے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔