ضمنی انتخابات ہوا کا رخ

پاکستان کی انتخابی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ضمنی انتخابات اکثر اوقات حکومتی جماعت جیت جاتی ہے کیونکہ اسے حکومتی مشینری کا خاموش تعاون حاصل ہوتا ہے۔حالیہ ضمنی انتخابات میں یہ انتخابی روایت ٹوٹتی نظر آرہی ہے۔ پشین بلوچستان کے صوبائی انتخابات میں پی ڈی ایم اتحاد کے امیدوار کو واضح اکثریت سے فتح حاصل ہوئی جبکہ حکمران اتحاد کا امیدوار ہار گیا۔ کراچی ملیر کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر پی پی پی کا امیدوار کامیاب ہوگیا، اس نشست پر تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار نے دوسری پوزیشن حاصل کی جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار تیسری پوزیشن حاصل کر سکے۔ وزیرآباد کی صوبائی اسمبلی کی نشست مسلم لیگ ن کے امیدوار نے جیت لی جبکہ تحریک انصاف کا امیدوار الیکشن ہار گیا۔ نوشہرہ کی صوبائی اسمبلی کی نشست بھی مسلم لیگ نون کے امیدوار نے جیت لی۔
اس نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار کی شکست کے بعد تحریک انصاف کے لیڈروں کو خفت اور ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے اثرات کو کم کرنے کیلئے وزیراعظم عمران خان نے وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک کو صوبائی وزارت سے فارغ کر دیا اور یہ الزام لگایا کہ انہوں نے مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو اپنے مضبوط قلعے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوتی آئی ہے کہ لیڈر ناکامی کی ذمے داری قبول کرنے کی بجائے دوسرے کو قربانی کا بکرا بناتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف خیبر پختونخواہ اور وفاق دونوں جگہ حکمران ہے۔ ان حالات میں نوشہرہ کی صوبائی نشست میں تحریک انصاف کے امیدوار کی شکست حیران کن ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی اپنی پارٹی پر گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے۔ جب سے انہوں نے وزارت عظمی کا منصب سنبھالا ہے، انہوں نے اپنی جماعت تحریک انصاف کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ تحریک انصاف کے امیدوار نے این اے 45 کرم میں فتح حاصل کر لی جو تحریک انصاف کے لیڈروں اور کارکنوں کیلئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ این اے 75 ڈسکہ مسلم لیگ نون کا انتخابی حلقہ ہے جہاں سے 2018ء کے انتخابات میں اسکے امیدوار نے فتح حاصل کی تھی۔ حیران کن طور پر تحریک انصاف کی قیادت نے قومی اسمبلی کی اس نشست کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا۔ پولنگ ڈے پر دہشت گردی کے نتیجے میں دو شہری جان کی بازی ہار گئے۔ سویلین حکومت پر امن اور شفاف انتخابات کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتی پاک فوج کو معاونت کیلئے طلب کیا جاتا ہے اور اسی پر ووٹ چوری کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس انتخابی حلقے میں انتخابی مہم کو چلانے کیلئے وزیراعظم ٹائیگر فورس کے چیئرمین اور معاون خصوصی نے عارضی طور پر اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا ۔ اس قسم کی مہم جوئی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اپنی پارٹی کے سینئر اور تجربہ کار افراد سے مشورہ کرنے کے بجائے ناتجربہ کار لوگوں سے مشاورت کر رہے ہیں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف دونوں کے لیڈران ڈسکہ کی قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کا امیدوار سات ہزار ووٹ کی برتری سے فتح حاصل کر چکا ہے جبکہ 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کا امیدوار چالیس ہزار ووٹ سے ہار گیا تھا۔ تحریک انصاف کے لیڈر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ڈسکہ میں انہوں نے کون سے ترقیاتی کام کیے تھے جن کی وجہ سے انکے امیدوار کو فتح حاصل ہوئی۔ پاکستان کے غیر جانبدار تبصرہ نگار متفق ہیں کہ پاکستان کے الیکشن کمیشن کو جو آئینی اختیارات حاصل ہیں انہیں سیاسی اور ذاتی مصلحتوں کے تحت استعمال نہیں کیا جاتا جس سے شفاف انتخابات کرانا ممکن نہیں ہوتا۔ الیکشن کمشن نے اپنی ہی روایت سے انحراف کرتے ہوئے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 20 پولنگ اسٹیشنوں کے پریذائڈنگ افسروں کو اغوا کیا گیا اور جب چیف الیکشن کمشنر نے پنجاب کے آئی جی چیف سیکرٹری اور کمشنر سے رابطہ کیا تو انہوں نے تعاون کرنے سے گریز کیا حالانکہ آئین کیمطابق انتخابی عمل کے دوران انتظامیہ چیف الیکشن کمشنر کے احکامات ماننے کی پابند ہوتی ہے۔ مقبول عام تاثر یہ ہے کہ بیس پولنگ اسٹیشن پر انتخابی نتائج تبدیل کیے گئے۔ حیران کن طور پر ان بیس پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کی شرح 90 فیصد ہے جبکہ دوسرے تقریباً ساڑھے تین سو پولنگ اسٹیشن پر شرح 30 سے 35 فیصد رہی۔
الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے دباؤ اور تناؤ کا شکار ہیں۔ مسلم لیگ نون کی قیادت نے مطالبہ کیا ہے کہ اس حلقے میں دوبارہ انتخاب کرایا جائے جبکہ تحریک انصاف کے لیڈر مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کا امیدوار چونکہ جیت چکا ہے لہٰذا اس کی کامیابی کا اعلان کیا جائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حق اور سچ کے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہیے اور آئینی تقاضے پورے کرنے چاہئیں تاکہ اس کی بچی کھچی ساکھ بھی داؤ پر نہ لگ جائے۔
حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہوا کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔ جس کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ جس نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ پاکستان کی گورننس میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اخلاقیات کی بنا پر جو مقام بنایا تھا اور پاکستان کے عوام نے ان کو اپنا ’’مسیحا‘‘ سمجھ لیا تھا یہ سحر اور جادو رفتہ رفتہ ٹوٹ رہا ہے۔ سینٹ کے انتخابات میں ان کو سخت مشکلات کا سامنا ہے ہے اگر پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اسلام آباد سے سینٹ کی نشست جیت گئے تو وزیراعظم عمران خان کو اخلاقی طور پر قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑیگا۔ وزیر اعظم عمران خان کوضمنی انتخابات کے نتائج سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ کامیاب لیڈر اپنی صفوں میں ایسے افراد کو تلاش کرتا ہے جو دیانت دار اور تجربہ کار ہوں ذمے داری نبھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور عوام کی نظروں میں ان کا وقار ہو۔ عمران خان مردم شناس ہیں۔ انکی جماعت میں اور اتحادیوں میں ایسی شخصیات موجود ہیں جن کی صلاحیتوں سے فایدہ اٹھا کر وہ اپنی آئینی ٹرم بھی پوری کر سکتے ہیں اور اگلے انتخابات میں بھی بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ محترم فخر امام سے میرا گزشتہ 25سالوں سے باہمی احترام کا تعلق ہے۔ ان کا شمار پاکستان کے چند اہل دیانت دار اور تجربہ کار سیاست دانوں میں ہوتا ہے جن کو نہ صرف عوام میں پزیرائی حاصل ہے بلکہ ریاست کے مختلف اداروں کے با اثر افراد انکی دیانت ذہانت اور اہلیت کے قائل ہیں۔ انہوں نے دنیا کے عظیم ممالک کے نظاموں کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ محترم فخر امام قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اور وفاقی وزیر بھی رہے ہیں۔ آجکل وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی ہیں۔ افسوس وزیراعظم عمران خان ان کی صلاحیتوں سے بھر پور فایدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ میں یقین اور اعتماد کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ عمران خان مردم شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر محترم فخر امام کو با اختیار سینئر وفاقی وزیر بنا دیں تو وہ پاکستان کو سیاسی بحران سے بھی نکال سکتے ہیں اور گورننس کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔