صاباں اگے نوکر ، نوکراں اگے چاکر تے چاکراں اَگے کشمش۔ صاحبو اگر کوئی صاحب جستجو اپ سے سوال کر بیٹھے کہ یہ محاورہ آئین پاکستان میں درج کس ریاستی ادارے کے ارکان پر پورا اترتا ہے تو ذرا سوچیں آپکا کیا جواب ہو گا۔ گوکہ اپنے اس ملک خداداد پاکستان میں انگریز اپنے پیچھے نوکر شاہی کا جو نظام چھوڑ کر گیا ہے اس محاورے کا ایک ایک لفظ اسکی اصل تصویر پیش کرتا ہے لیکن پیشگی معذرت کے ساتھ کہ کہیں کسی کے کسی استحقاق کو کوئی گزند نہ پہنچے راقم کی نظر میں ان دنوں سیاسی اْفق پر جس آنے والے طوفان بدتمیزی کا ڈھنڈورہ پیٹا جارہا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے بیشتر دوستوں کا اشارہ نومنتخب معزز ارکان سینٹ کی طرف بھی جا سکتا ہے۔
آئین پاکستان کے باب نمبر 2 کی شق 51 کے مطابق پاکستان کے عوام کے اس اختیار اور طریقہ کار کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح وہ پاکستان کی مجلس شوریٰ جیسے پارلیمان کے نام سے پکارا جاتا ہے اسکے ایک حصے جسے قومی اسمبلی کا نام دیا گیا ہے اسکے ارکان جنھیںحرف عام میں عوامی نمائندے اور شعبدہ بازی کے طور پر عوامی خادم کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے کو کتنی تعداد اور کس طرح منتخب کریں گے۔ آگے چل کر اسی چیپٹر کی شق 59 اس پارلیمان کے دوسرے حصے سینٹ جسے ایوانِ بالا کے نام سے بھی بْلایا جاتا ہے متعلق وہ تمام قواعد اور طریقہ کار بیان کرتی ہے جسکی روسے ہر صوبے کی اسمبلی کے ارکان اسمبلی میں پنی اپنی پارٹی کی متناسب نمائندگی کی بنیاد پر اپنے اپنے صوبے سے اور جبکہ کچھ مخصوص نشستوں پر وفاق کے کنٹرول علاقوں کے حوالے سے قومی اسمبلی کے ارکان سینٹ ارکان کو منتخب کریں گے۔ اس طریقہ کار اور درج ضوابط کی اصل روح پر لفظ بہ لفظ غور کریں تو گمان ہوتا ہے کہ اوپر درج محاورے میں جنھے صاحب کا نام دیا گیا ہے وہ دراصل پاکستان کے عوام ہیں جبکہ جنھے نوکر کے نام سے تشبیہ دی گئی ہے وہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان ہیں اور جنھیں چاکر کے نام سے یاد کیا جا رہا ہے حقیقت میں یہ سینٹ کے وہ معزز ارکان ہیں جنھیں یہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے معزز ارکان منتخب کرتے ہیں۔ یہاں تک تو محاورے میں درج ایک ایک بات کی سمجھ اتی اور صادق ہوتی نظر آتی ہے لیکن مجھ جیسے کم عقل کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ جب اوپر والی درج حقیقتوں کی سچائی پر کوئی سوالیہ نشان نہیں تو پھر یہ چاکروں کے آگے کشمش والا کیا معاملہ ہے۔
اس معاملہ کی گہرائی تک کسی کو اگر پہنچنا ہے تو پھر اسے تجزیاتی بنیادوں پر کچھ حقائق کا جائزہ لینا ہو گا۔ دستیاب معلومات کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت سینٹ میں موجود سٹیڈنگ کمیٹیوں کی تعداد 34 ، فنکشنل کمیٹیوں کی تعداد 4، متفرق کمیٹیوں کی تعداد 2، سپیشل کمیٹیوں کی تعداد 10، ڈومیسٹک کمیٹیوں کی تعداد 4 اور ایک عدد سلیکٹ کمیٹی کو ملا کر جنکی تعداد تقریباً 55 ہو جاتی ہے اْن میں سے ہر کمیٹی کو سینٹ کا ایک رْکن ہیڈ کرتا ہے۔ گو کہ سینٹ کے ہر رْکن کی بنیادی تنخواہ اور الاونسز پر ایک نظر ڈالی جائے تو 89,502 روپے کی معمولی سی رقم سامنے آتی ہے لیکن اگر ان سٹینڈ نگ کمیٹیوں کے سربراہوں کی ہوشربا مراعات پر ایک نظر ڈالیں جنکی تفصیل کچھ یوں ہے ایک سٹاف کار بمعہ 360 لیٹر پٹرول، ایک پرائیویٹ سیکرٹری بی پی ایس 17، ایک سٹینوگرافر بی پی ایس 15، ایک ڈرائیور بی پی ایس 4، ایک نائب قاصد، اسکے علاوہ رہائشی ، سفری، میڈیکل اور دیگر متفرق سہولیات پر ایک نظر ڈالیں تو پھر یہ کشمش والی بات کی سمجھ اتی ہے کہ یہ صاب نوکر چاکر اور کشمش والا محاورہ کہاں اور کس پر صادق نظر آتا ہے۔
غور طلب معاملہ ہے کہ جس ملک کے سب سے بڑے ریاستی ادارے جس کے بطن سے ملک میں نافذ تمام قوانین جنم لیتے ہیں اسکے بارے ایسے گمان پیدا ہو جائیں اور پھر وقت کا وہ جبر جس کی حقیقت چڑھتے سورج کی طرح سب پر عیاں ہے کہ اس ملک کا نوکر شاہی نظام کا ایک ایک انگ بھی اسی کینسر کے مرض کا پہلے سے ہی شکار ہو چکا ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریاست کا وہ کونسا ادارہ ہے جسکے فرائض منصبی بارے میں کسی خوش فہمی کا گمان کیا جا سکتا ہے۔ اگر کچھ دوست مقننہ اور انتظامیہ سے مایوسی کے بعد عدلیہ بارے کوئی مثبت رائے کا اظہار کرتے ہیں تو پھر اسکی صحت بارے راقم ہی نہیں حقائق پر مبنی عزیر بلوچ ، راؤ انوار، شاہ رْخ جتوئی سے لیکر ارشد ملک سابقہ جج احتساب عدالت اسلام آباد تک ہزاروں کیسوں کی ایک طویل فہرست ہے جو اس قسم کی خوش فہمی پر سوالیہ نشان ہی نہیں اْٹھا رہی بلکہ اسکا منہ بھی چڑاتی ہے۔ راقم کی تیسری آنکھ جسکے بارے وہ اکثر اپنے کالموں میں ذکر کرتا ہے ان تمام احباب کی طرح جو فکر کی اساس کے فقیر ہیں اس تشویش میں مبتلا ہے کہ جس رفتار سے اس ملک کے نظام کی ایک ایک اینٹ جو گر تو پہلے ہی رہیں تھیں لیکن اب نااہلی ، بد انتظامی ، اقربا پروری اور ضمیر فروشی کے زلزلوں کے جن جھٹکوں نے ریاست کے ستونوں میں بھی داراڑیں ڈالنی شروع کر دی ہے اسکے بعد اس عمارت کا کیا مستقبل ہو گا جس میں ہم رہ رہے ہیں جو ہماری پناہ گاہ ہے۔ ابھی اپنے اس کالم میں راقم نے جان بوجھ کر اس سانحے کا ذکر نہیں کیا جو دھند کی وجہ سے پورے ملک اور اسکے نظام کو ایک ایسے گڑھے میں دھکیل گیا ہے جسکے ممکنہ نتائج کے بارے اپنی تیسری آنکھ بھی کچھ دیکھنے سے قاصر ہے۔ بس یہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اناللہ…
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024