غزل

وہ جو چاہیں صبح و شام کریں دن رات کریں
جس سے چاہیں ،جب چاہیں وہ بات کریں
ہم کوئی بات کریں تو وہ نذر جذبات کریں
زباں سے شعلے اگلیں نظروں سے برسات کریں
کون پوچھے ان سے کیوں اس قدر سوالات کریں
جب چاہیں جو چاہیں صادر احکامات کریں
ہمیں زعم صلے میں شائد وہ کچھ انعامات کریں
انہیں غصہ،وہ نام ہمارے کیاکیا الزامات کریں
فضول بحث مباحثہ میں ان سے زرا احتیاط کریں
ان کی مرضی جو چاہیں اعجاز یا پھر کرامات کریں
صد شکر ان سے کوئی بات دل کی نہ کہی
کیا جانے کب بدل جائیں ظاہر اثرات تغیرات کریں
ہم کون ہیں ان سے جرات استفسار کرنے والے
جس پہ چاہیں ستم کریں جس پہ چاہیں عنایات کریں
حضور آپ کا شکوہ بجا مگر ہم مجبور ہیں
آپ سے نہ کریں تو کس سے دل کے معاملات کریں
حفیظ جدھر نظر وہ کریں گلشنِ خواہشات کھل اٹھیں
اس سے بڑھ کے نہ جانے کیا کیا کمالات کریں
( محمد حفیظ مغل، برطانیہ)