سوُرۃ الحجُرات میں بیان کردہ سنہری معاشرتی اصول
بنیادی طور پر ’اخلاق ‘ انسانوں کے درمیان حقوق و فرائض کو بحُسن و خوبی ادا کرنے کا نام ہے۔ اسی لیئے دنیا کے ہر مذہب میں اپنے ماننے والوں کی اخلاقی تربیت کے لیئے کوششیں کی گئیں۔اسلام میں اخلاقی نظامِ معاشرت کی حیثیت کو جس انداز سے تکمیلی شان عطا کی گئی وہ ہمیں دوسرے مذاہب میں نظر نہیں آتی خود آپؐ نے ارشادفرمایاکہ ـ’میں حُسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیئے بھیجا گیا ہوں‘۔حضرتِ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’جو کچھ قُرآن میں ہے وہ آپؐ کے اخلاق ہیں‘۔ اسی طرح قرُآنِ کریم میں الّٰلہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں کہ ’ بلاشبہ آپؐ اخلاق کے بہترین مرتبے پر ہیں‘۔ یہاں تک کہ آپؐ نماز میں جو دُعا مانگتے اُس کا ایک حصّہ اِن الفاظ پر مشتمل ہوتا ’اے الّٰلہ تو مجھ کو بہترسے بہتر اخلاق کی رہنمائی فرما اور بُرے اخلاق کو مجھ سے پھیر دے اور اُن کو تیرے سوا کوئی نہیں پھیر سکتا‘ (مسلم) ۔ معاشرت کا سارا دارو مدار زبان سے شروع ہو کر زبان پر ہی ختم ہوتا ہے۔ اسی لیئے آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’تم مجھے زبان کی ضمانت دو میں تمہیں جنّت کی ضمانت دیتا ہوں ‘ اس ضمن میں حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسولِ پاکؐ نے فرمایا ۔ ’ کیا تمھیں وہ چیز نہ بتائوں جس پر سارے معاملے کا دارومدار ہے؟ عرض کیا جی اے الّٰلہ کے رسولؐ ، تب آپؐ نے اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا ِ’ اسے اپنے قابو میں رکھو ‘۔ عرض کیا اے الّٰلہ کے رسولؐ کیا ہم جو بولتے ہیں اُس پر پکڑے جائیں گے؟ فرمایا، معاذؓ لوگ اپنی زبانوں کی کھیتی کی وجہ سے ہی تو اوندھے منہ جہنّم میں ڈالے جائیں گے(ترمذی)۔ لہذٰا الّٰلہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ الحجرُات آیت نمبر 6 سے 12 میں ایک مثالی اسلامی معاشرت قائم کرنے کے لیئے نو نُکات پر مشتمل ایک ایسا لائحہ عمل عطا کیا جس کا تعلق براہِ راست ہماری زبان سے ہے اور جو انسان کی اخلاقی عظمت کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ لہذٰا پہلے حکم میں الّٰلہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو‘۔ آپس کے معاملات
سُدھارنے اور معاشرے کو بدامنی سے بچانے کے لیئے الّٰلہ تعالیٰ نے اس حکم میں بہتر تدبیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہر سُنی سُنائی اور بلاتحقیق بات کو معاشرے میں پھیلانے اور انتشار برپا کرنے سے روکا گیا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ مردوں سے زیادہ ہم خواتین ان معاملات میں بہت عُجلت سے کام لیتی ہیںاوراکثر بلا تحقیق بات کو خاندان یا پڑوس میں پھیلادیتی ہیں ہمیں چاہیئے کہ جس کسی کی جو بات جہاں سُنیں وہیں تک محدود رہنے دیںتو اِسی میں عافیت ہے۔ آیت نمبر9 میں الّٰلہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’اور انصاف کرو ، الّٰلہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘۔ دوسرا واضح حکم اس آیت میں آپس کے معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کرنے کا ہے اور ایسا انصاف جو اقرباء پروری اور ہر طرح کی برتری سے بالا تر ہو۔ تیسرا حکم اس آیت میں یہ ہے کہ ’ بے شک مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، لہذٰا اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو‘۔ اس آیت میںدو مسلمانوں کے درمیان کینہ و کدورت ختم کروا کر صلح کرانے کی ہدایت ہے۔ ہم خواتین کو آپس کے بغض و عناد ختم کر کے صلح جوئی سے کام لینا چاہیئے ۔ چوتھے حکم کے حوالے سے آیت نمبر11 میں ارشادِ ربّانی ہے کہ ’نہ مرد دوسرے مردوں کا تمسخر اُڑائیںہو سکتا ہے کہ وہ اُن سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ اُن سے بہتر ہوں‘۔ اس آیت میں الّٰلہ تعالیٰ نے مسلمان مردوعورت کو اس بات کی تاکید کی ہے کہ وہ کسی بھی طور پر دوسروں کی تضحیک نہ کریں ۔ پانچواں حکم طعنہ زنی سے متعلق ہے ۔ الّٰلہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’ اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو‘۔ یعنی کسی طور پر بھی کسی کو طنز یا طعنہ زنی کے ذریعے نشانہء ملامت نہ بنائیں۔ اسی طرح چھٹا حکم بُرے القاب سے پُکارنے کے متعلق ہے ارشادِ ربّانی ہے ’اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے پُکارو‘ یعنی کسی کا مذاق اُڑاتے ہوئے اُس کا کوئی برا نام رکھ دینا جسے سُن کر اُس کی دل آزاری و تذلیل ہو، اس عمل سے منع کیا گیا ہے۔ ساتواں حکم ’ظن‘ یعنی گمان سے متعلق ہے الّٰلہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’اے ایمان والو بہت سے گُمانوں سے بچا کرو، بے شک بعض گُمان گُناہ ہوتے ہیں‘۔ کیونکہ کچھ گُمان برُے ہوتے ہیں اور گناہ کے زُمرے میں آتے ہیںلہذا ظن و گمان کی جتنی بھی
اقسام ہیں اُن کی تحقیق ضروری ہے کہ کونسا گُمان جائز اور نا جائز ہے۔ اِسی طرح کسی مسلمان مرد اور عورت کے متعلق بغیر کسی قوی دلیل کے بدگمانی حرام ہے۔ حضرت ابو ہُریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریمؐ نے فرمایا ’ بدگمانی سے بچو اس لیئے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔‘ (بخاری)۔ آپؐ نے حسنِ ظن کو عمدہ عبادت قرار دیا۔ لہذا ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اچھا گمان رکھنا چاہیئے۔ آٹھواں حکم تجسّس سے ممانعت کے بارے میں ہے الّٰلہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’اور بھید نہ ٹٹولو کسی کا‘یعنی کسی مسلمان مرد و عورت کا جو عیب ظاہر نہ ہوا ہو اُس کی جستجو یا تلاش کرنا جائز نہیں۔ بدقسمتی سے یہ گناہ ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے۔ اکثرہم خواتین کو اپنے گھر کی اتنی فکر نہیں ہوتی جتنی کہ دوسروں کے معاملا ت جاننے کی فکر۔ ہمیں صرف اپنے معاملات اور نیکی کے اُمور کی جُستجو رکھنی چاہیئے۔ نواں حکم غیبت سے ممانعت کا ہے الّٰلہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’اور بُرا نہ کہو پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو، بھلا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ سو کراہت آتی ہے تم کو اس سے‘۔ غیبت سنگین معاشرتی بُرائی ہے جسے مُردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مُترادف قرار دیا گیا ہے جبکہ یہ بُرائی اب معاشرتی معمول بن چکی ہے۔ مرد و عورت سب ہی اس میں ملوّث ہیںخصوصاً ہم خواتین کثرت سے اس بُرائی میں مبتلا ہیں۔ ہم کثرت سے دوسروں کی عیب جوئی اور غیبت کرتی ہیں ۔رسولِ پاکؐ نے فرمایا کہ معراج کی رات میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جو اپنے چہروں کو اپنے ناخنوں سے نوچ رہے تھے میں نے حضرت جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی غیبت کرکے اُنہیں بے عزّت کرتے تھے۔‘ غرض یہ کہ مذکورہ بالا تمام احکام ہماری اخلاقی تربیت کے لیئے نازل کیئے گئے کیونکہ انہی تمام بُرائیوں کی وجہ سے نہ صرف آپس کے تعلقات بِگڑتے ہیں بلکہ خاندان اُجڑتے ہیں معاشرے میں انتشار اور عدم استحکام پیدا ہو جاتا ہے۔ لہذٰا ہم خواتین اگرانفرادی طور پر یہ فکر چھوڑ کر کہ کون کیا کر رہا ہے، کیوں کر رہا ہے اور کیسے کر رہا ہے؟ اپنی فکر اور اصلاح پر پوری طرح توجہ دیں تو عین ممکن ہے کہ ہماری انفرادی اصلاح کے ثمرات خاندان اور معاشرے کی اصلاح کا موجب ہو جائیں۔