ٹی وی نامہ پاک چین کو پروڈکشن ’’رِشتے اور راستے‘‘ 12

آر اے نسیم کراچی سینٹر میں سینئر اکاؤنٹنٹ تھے ۔کرکٹ کے بہترین آل راؤنڈر اور برسوں ہماری ٹیم میں کھیلتے رہے۔ اُنہیں میں نے ’’رشتے اور راستے‘‘ کے مینیجر اور اکاؤنٹنٹ کے طور پر اپنی مدد کے لیے چن لیا۔ وہ میری ٹیم کے بہترین ممبر تھے۔ اللہ اُنہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے بہت ہی محنتی اور لائق انسان تھے۔جب ہم قیض کیمپ میں مصروف تھے تو اُ نکا ایک خط میرے نوٹس میں سے ملا ہے:[ 28-8-86 محترم بختیار جی! آداب۔ امید ہے آپ لوگ بخیریت ہوں گے۔ آپ کی دعا سے آج دوپہر ہسپتال والوں نے میری چھُٹی کر دی ہے لیکن مجھے روزانہ فزیو تھراپی کے لیے ہسپتال جانا پڑے گا کیوں کہ ابھی ہلکادردہے جس کی وجہ سوجن ہے۔ انشاء اللہ وہ بھی جلد ٹھیک ہو جائے گا۔کاشغر آ کر مجھے معلوم ہُوا کہ ساجدہ سید صاحبہ کی طبیعت کل رات سخت خراب ہو گئی تھی۔سردی سے کافی تیز بخار اور ہونٹ نیلے پڑ گئے تھے۔انہیںفوراً ہسپتال لے جایا گیا۔ وہ لوگ بضد تھے اُنہیں داخل کرایا جائے لیکن جان چھُٹ گئی۔ آج شام تک اُنکی حالت بہتر ہو گئی تھی اور خدا کے فضل سے وہ اور عاصم بخاری صاحب ساڑھے سات بجے کی فلائٹ سے اروممُچی روانہ ہو گئے ہیں۔ ارومچی سے بیجنگ کے لیے اُن کی سیٹ او کے نہیں تھی۔ وہاں جا کر اُنہیں پتہ چلے گا کہ کب کی سیٹ ملتی ہے۔ ان لوگوں کی روانگی کی اطلاع میں نے حبیب صاحب کو بیجنگ میں دے دی ہے۔حبیب صاحب نے اُن کی کراچی کے لیے روانگی 2 ستمبر کنفرم کر دی ہے۔ چُو صاحب(ہماری ٹیم کے مترجم) کے شعبے والوں سے حبیب صاحب نے بات کر لی ہے۔ وہ چُو صاحب کو مزید چھُٹی دینے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔اُنکے کانٹریکٹ میں توسیع ہو گی جو سی سی ٹی وی والے کریں گے۔ اُس کے لیے بھی حبیب صاحب نے کہہ دیا ہے لہٰذا چُو صاحب دل لگا کر ہمارے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ نئے پروگرام کے مطابق حبیب صاحب 8 ستمبر کو کاشغر پہنچیں گے اور 9 ستمبر کوواپس چلے جائیں گے۔وہ بتارہے تھے کہ ابھی تک ہیڈ کوارٹرسے پیسوں کی منظوری نہیں موصول ہوئی۔ برہان صاحب سے اُن کی بات ہوئی ہے۔ امید ہے 1500$ کی منظوری ہو جائے۔جیسے ہی کوئی اطلاع آئی میں آپ کو فوراًمطلع کروں گا اطمینان رکھیں۔رانا (اسسٹنٹ ڈائریکٹر)سے کہیں کہ میرا سُوٹ کیس اور بیگ کسی کے ہاتھ فوراً مجھے بھجوا دیں کیوں کہ میرے پاس کپڑے نہیں ہیں چابیاں ضرور بھیجیں۔دوسری تمام چابیوں کی نقل رانا کے پاس ہیں۔دیگر تمام دوستوں کو میرا سلام عرض کیجیے گا۔ نیّربھابی (نیّر کمال)بھی سب کو سلام عرض کرتی ہیں۔اپنی صحت کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ اجازت چاہتا ہوں۔ خدا حافظ! نسیم۔ کاشغر۔ ] شنگھائی سے ہم ہانگ چُو پہنچے جہاں کا حال میں پچھلی اقساط میں لکھ چکا ہوں۔ وہاں سے ہمارا آخری پڑاؤ بیجنگ تھا اور اُس کا بھی بیشتر احوال قارئین کی نذر ہو چکا۔بیجنگ میں آتش بازی، دیوارِ چین، اسلامی مرکز، ہزار ہا بلکہ لاکھوں بائیسکلوں سے بھری پُری سڑکیں، ان میں ایسی سائیکلیں بھی جن کے آگے ہینڈل کے ساتھ لگے شیشے کے ڈبے جن میں چھوٹے چھوٹے بچے، پُرانے شاہی محلات، بجلی سے چلتی تین تین بسوں کے تقریباً ہرسڑک پر مسافروں سے ٹھُنسے کاروان، علی الصبح ہر سڑک پر سلو موشن یوگا ٹائپ ورزشیں کرتے جوان اور عمر رسیدہ خواتین و حضرات۔ ماؤ زے تنگ کا حنوط شدہ‘ شیشے کے بکس میںبندجسم، تیان من چوک میں لاکھوں کروڑوں پھولوں کی خوب صورت نمائش، بیجنگ بطخ کا لنچ، کاغذ کی طرح پتلے ‘سماوار کے گرد گرم پانی میں ڈبو کر پکتے گوشت کے لخت، درجن بھر چٹنیاں، ہر چینی کا گرم پانی کا ہمہ وقت مشروب، ٹیلیوژن اور ریڈیو کی مشترکہ عمارتیں جن سے ملحقہ ہی ان اداروں میں کام کرنے والوں کے رہائشی فلیٹ،بیجنگ کا وسیع وعریض فلم نگار خانہ جہاں اُن دنوں ہالی وُڈ کے اشتراک سےThe Last Emperor نامی فلم تیار ہورہی تھی،اُس فلم کی حیران کُن حد تک بڑی وارڈ روب،فلم کے لیے خوبصورت گھوڑوں کی ٹریننگ، ہانگ چُو کے معبد پہار پر صرف دالوں سے بنے مچھلی، گوشت، سبزیوں کی شکل کے پکوان۔۔۔۔۔۔۔کیسی کیسی حیرتیںگِنوں؟ یوں کہیے سارا چین ایک حیرت کدہ تھا!آج بھی ہو گا بل کہ ہے۔قصہ مُختصر وہ دن جب یاد آتے ہیں لفظ حیرت کی تجسیم ہو جاتی ہے۔میں تہِ دل سے ربِ کائنات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ پی ٹی وی میں ہونے سے مجھے بے شمار بہترین انسانوں کے ساتھ کام کرنے اور خوبصورت ترین مقامات کو دیکھنے کا شرف حاصل ہُوا۔پی ٹی وی کے اس سفر میں کُلفتیں بھی نصیب ہوئیں مگر وہ سب بھلا دینے کے لائق ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستا ن کے علاوہ بھی دنیا بھر کے بہترین فنکاروں، ہنر مندوں، بڑے لوگوں سے یاد اللہ رہی اور میں اتنا رئیس ہو گیا کہ خود پر رشک آتا ہے۔ جن نابغۂ روزگار ہستیوں سے متعارف ہُوا ور جن کے ساتھ کام کے مواقع بھی ملے اُن کے نام لکھنے لگوں تو ایک کتاب تیار ہو جائے۔ ’’ نوائے وقت‘‘ کا شکر گزار ہوں کہ مجھے ’’اچھی خبر‘‘ کالم کی وساطت سے ‘اپریل 1992 سے آج تک (بیچ میں صرف ڈیڑھ دو برس کا وقفہ ہے جب میں کینیڈا اور یو کے میں تھا) اپنی گزارشات مؤقر قارئین کی نذر کرنے کا موقع ملا۔بیجنگ ہماری آخری لوکیشن تھی ۔بفضلِ تعالیٰ ایک خوبصورت پراجیکٹ بہ احسن و خوبی مکمل کر کے سولہ اکتوبر ۱۹۸۶ کو ہم واپس پاکستان پہنچ گئے۔گویا
فلم کے ٹُکڑے حاصل ہو گئے اب ان ٹکڑوں کواحسن طریقے سے ترتیب دے کر فلم کو ایک اکائی کی صورت دینا تھا ،یعنی تدوین(ایڈٹنگ) کرنا تھی اور واپس آکر یہ کام بھی زور شور سے شروع ہو گیا۔ اس پر میرا ایک نامکمل نوٹ میرے پاس محفوظ ہے جو پیشِ خدمت ہے:اس نوٹ کا عنوان تھا’’ کٹھن راہ‘‘’’ رشتے اور راستے‘‘ کی تیاری۔ ’’انتہا‘‘۔ آج مورخہ ۲۳؍ اگست ۱۹۸۷ بروز اتوار صبح گیارہ بجے ‘میں ’’رشتے اور راستے‘‘ کا آخری شاٹ لگا کر اُٹھا ہوں۔میرا دھیان بٹا ہُوا ہے کہ آج سے پسِ پردہ موسیقی کی ریکارڈنگ شروع کرنا ہے۔ محترمی نثار بزمی صاحب آئے بیٹھے ہیں ۔ دن کے بارہ بج چکے ہیںاور سازندوں کا کوئی پتہ نہیں۔ میں ریکارڈنگ روم میں پہنچتا ہوں۔ سفید ریش نثار بزمی صاحب نیم غُصّہ لیے بیٹھے ہیں۔’’دیکھ لیجیے بارہ بج رہے ہیں اور سازندوں کا کوئی پتہ نہیں۔ آئیں گے دوبجے کے بعد اور چھ بجے واپسی کر لیں گے کہ فنکشن پر جانا ہے۔ اِسی لیے میں نے یہ کام چھوڑ دیا ہے۔‘‘ میں اُن کے غُصّے کو کم کرنے کے لیے کھسیانی سی ہنسی ہنستاہوں۔’’لائیے میں اُتنی دیر میں باقی کا کھیل بھی وی ایچ ایس پر ٹرانسفر کراتا ہوں، تھوڑا سا رہ گیا ہے، تا کہ آپ پورا کھیل دیکھ کر موسیقی ترتیب دے سکیں‘‘۔۔۔۔۔’’اچھا مکمل ہو گیا؟‘‘’’جی ہاں ابھی ابھی آخری شاٹ جوڑ کر آیا ہوںاور ہاں معذرت چاہتا ہوں پرسوں حاضر نہ ہو سکا۔ در اصل بارہ تو یہیں بج گئے تھے۔‘‘’’کوئی بات نہیں۔ تو اب کیا کریں؟ میرا خیال ہے اب محرم کے بعد ہی موسیقی ریکارڈ کیجیے۔‘‘’’لیکن بزمی صاحب ، ہیڈ کوارٹر سے کل پھر ٹیلیکس آیا ہے کہ پچیس تاریخ تک اِسے تیار ہو جانا چاہئیے۔‘‘’’پھر۔۔۔۔؟‘‘’’پھر۔۔۔۔؟‘‘چائے آ جاتی ہے۔ تلخ گھونٹ بھرتے ہوئے ہم بے بس‘ سازندوں کے رحم و کرم پر پڑے کُڑھتے رہتے ہیں۔ میں اُٹھتا ہوں۔’’آئیے نیچے چل کر بیٹھتے ہیں۔ جب تک ٹرانسفر مکمل ہو جائے گی۔‘‘ بعد دوپہر میں ہیڈ آفس فون کرتا ہوں۔ اعجاز آصف مجھے مبارک باد دیتے ہیں۔میں اُنہیں بد خبری دیتا ہُوں۔’’ دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ تقریباً۔۔۔۔165 منٹ۔ سوا ایک صفحے کا یہ نوٹ اتنا ہی ہے۔ اب مجھے یاد نہیں ’’پرسوں‘‘ مجھے بزمی صاحب کے ہاں کیوں جانا تھا؟ یا سازندے کب آئے تھے اور موسیقی کی ریکارڈنگ کیسے شروع ہوئی تھی؟ بس یہ یاد پڑتا ہے کہ بچارے بزمی صا حب سازندوں کی آمد پر خوب ناراض ہوئے تھے ۔سازندوں نے حسبِ عادت آئیں بائیں شائیں اور منت سماجت کرکے بزمی صاحب کو منا لیا تھا۔بہر حال جب بزمی صاحب نے ایک سو پینسٹھ منٹ طویل فلم دیکھی تھی تو مجھ پر خفا ہوئے تھے اور حکماً مجھے کہا تھا کہ اس کادورانیہ کم کرو۔ بزمی صاحب کا یہ حکم جب مجھے یاد آتا ہے تو میں اپنی قسمت پر رشک کرتا ہوں کہ مجھے ایسے ایسے اتالیق میسّر تھے جن کی وجہ سے میرے کام میں نکھار آ جاتا تھا۔ الحمد۔۔۔۔۔۔ مجھے جنابِ ظہیر بھٹی بھی یاد آ جاتے ہیں کہ جب انہوں نے مجھے میرے کھیل’’مقدمہ ‘‘کی طرز پر کشمیر کی حالتِ زار پر کھیل لکھنے اور پروڈیوس کرنے کو کہا تھا اور میں نے کمال رعونت سے (توبہ اِستغفار!) یہ کہہ دیا تھا’’میں خود کو دوہرانانہیں کرنا چاہتا۔‘‘ اور انہوں نے مجھے قدرے جھڑکتے ہوئے کہا تھا،’’ بیوقوفی کی بات نہ کرو۔چلو شروع ہو جاؤ۔‘‘میں نے بہت دفعہ اُس جھڑکی کو یاد کیا ہے اور توبہ بھی کرتا ہوں کہ اگر میں اپنی بیوقوفی پر اڑ جاتا تو’’مقدمۂ کشمیر‘‘ جیسا کھیل تخلیق نہ ہوتا! اور میں بیوقوف کا بیوقوف رہ جاتا! اپنی کئی بیوقوفیاں یاد آ رہی ہیں جو پھر کبھی عرض کروں گا ۔ فی الحال تو ’’رشتے اور راستے‘‘ کی کتھا چل رہی ہے جو ‘اب اپنے اختتام پر ہے۔ اس کھیل کی تیاری میں جنابِ تاج حیدر ، پی ٹی وی ہیڈآفس، میری ساری ٹیم اور کیمرہ مین نثارمرزا ، ندیم اکبر ڈار کا شکر یہ ادا کرتا ہوں۔ اگر یہ سب ہنر مند اور فن کار اپنی محبت اور محنت سے میری مدد نہ کرتے تو پاک چائنا کوپروڈکشن’’ رشتے اور راستے‘‘ وجود میں نہ آتی۔