اردو کا زوال ،ذمہ دار کون ؟
ایک گدھ ایک بھوکی اور قریب المرگ بچی کے مرنے کا انتظار کر رہاتھا۔ تاکہ اُسے نوچ کرکھا سکے ۔ ایک سائوتھ افریقی جرنلسٹ Kevin Carterنے 1993ء میں سوڈان میں قحط کے دوران تصویر کھینچی ، یہ تصویر دنیا میں اتنی مشہور ہوئی کہ انہیں اس تصویر کی وجہ سے Pulitzer Prizeسے نوازاگیا لیکن کارٹر زیادہ دن زندہ نہ رہ سکا اور اپنے اس اعزاز کا لطف زیادہ دنوں تک نہیں اُٹھا سکا ۔ کیونکہ ڈپریشن کاشکار ہو کر اس نے خود شکی کر لی ۔ ایسا کیوں ہوا ؟ دراصل وہ اس ایوارڈ کے پانے کا جشن منارہا تھا تو ساری دنیا کے میڈیا چینلز پر اسکا ذکر ہو رہا تھا اوراسکی شہرت بام عروج پر پہنچ چکی تھی ۔ تبھی وہ واقعہ ہوا جس کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو کر کارٹر نے خود کشی کر لی ۔ ہوایوں کہ ایک انٹر ویو کے دوران کسی نے کارٹر سے پوچھ لیا کہ آپ نے تصویر تو بہت زبردست لی لیکن یہ بتائیں اُس بچی کا کیاہوا؟ کارٹر یہ سوال سن کر مبہوت رہ گیا ۔پھر اُس نے سنبھل کر جواب دیا یہ دیکھنے کیلئے وہ رک نہیں سکا کیونکہ اُسے فلائٹ پکڑنی تھی ۔ یہ جواب سن کر سوال پوچھنے والے نے کہا کہ اُس دن وہاں دو گدھ تھے جن میں سے ایک کے ہاتھ میں کیمرہ تھا ۔ اس واقعے نے کارٹر پر اتنا اثر ڈالا کہ وہ ڈپریشن میں چلا گیا اور آخر کار خود کشی کرلی ۔ یہی کچھ توہماری قومی زبان اُردو کے ساتھ ہوا ۔ ہمارے زمانہ طالب علمی کے وقت انگریزی کے چندہی الفاظ ہوتے تھے مثلا ً ہیڈ ماسٹر ، فیس ، فیل ، پاس اورجمعرات کو آدھی چھٹی یعنی ہاف ڈے اور جمعہ کو مکمل چھٹی ہوتی تھی ۔ اس طرح انگلش میڈیم اسکول میں پیپر اور سرکاری اسکول میں پر چہ کہا جاتاتھا۔ پھر استادکو سرکہا جانے لگا ۔سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے ۔پھرعام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اُردو کا جوزوال شروع ہوا۔ وہ اب تک جاری ہے ۔ جماعت کو کلاس میں اور جو ہم جماعت تھے وہ سب کلاس فیلو ہوگئے۔ ہمیں بخوبی یاد ہے کہ اول ، دوئم ، سوم ، چہارم ، پنجم ،ششم ، ہفتم ،ہشتم ، نہم ،دہم جماعتیں ہوتی تھیں اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح ہوتاتھا ۔پھر اِن کمروں نے فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں ۔ تفریح کی جگہ ریسیں اوربریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے ۔ گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکشن اور وینٹر ویکیشن آگئیں ۔چھٹیوں کاکام چھٹیوں کا کام ہی نہ رہابلکہ ہولیڈے ہوم ورک ہو گیا ۔ پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی ۔ اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آتی ہے ۔ امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے ۔ قلم ،دوات ،سیاہی ، تختی اور سلیٹ جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں۔ اِنکی جگہ لیڈپنسل اور بالپین آگئے ۔ کا پیوں پر نوٹ بکس کا قبضہ ہو گیا ۔ نصاب کوکو رس کہا جانے لگا اس تمام کورس کی کتابیں بستے کی جگہ بیگ میں رکھ دی گئیں ۔ ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔ اسلامیات کی جگہ اسلامک اسٹڈی بن گئی۔ انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی ۔
اسی طرح طبیعات فزکس ،معاشریات اکنامکس ، سماجی علوم ، سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئیں ۔ داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے ۔ پہلے انعام ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے ۔ بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ کلیپ کرنے لگے ۔ یہ سب کچھ سرکاری اسکو لوں میں ہوا ہے۔ باقی رہے پرائیویٹ اسکول انکا تو پوچھئے ہی مت ، صرف تعلیمی ادارے ہی نہیں ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ۔ باورچی خانہ کچن بن گیا اور اس میں پڑے برتن کراکری ، غسل خانہ ، پہلے باتھ روم ہوا ، پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا ۔ مہمان خانہ کو ڈرائینگ روم ،پہلی منزل کو گرائونڈفلو ر اوردوسری منزل کو فرسٹ فلور ،دروازہ ڈور بن گیا ۔ کپڑے الماری کی جگہ وارڈروب اور کبرڈمیں رکھے جانے لگے ۔ دوسری طرف رشتوں میں دیکھ لو ۔ ابو جی یا ابا ،ڈیڈی یا پاپا بن گے ۔امی یا امی جان ممی میں تبدیل ہو گئیں ۔ سب زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔ چچا چچی ، مامو ں ، ممانی ،پھو پھا ، پھوپو ،خالو ، خالہ سب کے سب غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ انکل اورآنٹی میں تبدیل ہو گئے ۔بچوں کے لئے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب کے سب انکل ہو گئے ۔ یعنی محمود ،ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے اور ساری عورتیں آنٹیاں بن گئیں ۔ گھر اورا سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعدبازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتا ۔دوکانیں شاپس ، گاہک کسٹمر بن گئے ۔ کریانے کی دکان جنرل اسٹور بن گئے ۔ قصہ مختصر سود انٹرسٹ کہا جانے لگا ، محبوب بوائے فرینڈ اور محبوبہ گرل فرینڈ بن گئیں اور خبروں کی جگہ نیوز سننے لگے ۔ کس کس کا اور کہاں کہاں رونا رویا جائے ۔ اُردو کے زوال کی صرف حکومت ریاست ہی ذمہ دار نہیں بلکہ عام آدمی تک نے اس میں حصہ لیا ہے اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہوکر کیسے بگاڑ لیا۔ وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ۔ انکو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ۔ ہم لوگ کہاں سے کہاں آگئے اور کہاں جارہے ہیں؟ دوسروں کو کیا رونا روئیں ہم خود ہی اسکے ذمہ دار ہیں ۔ دوسرا اور کون ہو سکتا ہے۔