فرانس میں مسلمانوں پر پابندیوں کا نیا قانون

فرانس میں انتہا پسندی کی روک تھام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف سخت پابندیوں اور کڑی نگرانی کے لیے ایک نیا قانون منظور کیاگیا ہے۔ فرانسیسی اسمبلی کے 347 ارکان نے اس قانون کے حق میں اور 151 ارکان نے اس قانون کی مخالفت میں ووٹ دیا، جب کہ رائے شماری کے موقع پر 65 اراکین ایوان سے غیر حاضر رہے۔ فرانسیسی قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے اس بل کا مقصد بظاہر یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے ذریعے مذہبی تنظیموں کی کڑی نگرانی، تشدد کے واقعات کو جواز فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی، عام اسکولوں سے ہٹ کر دیگر اداروں میں بچوں کی تعلیم اور جبری شادیوں وغیرہ کی روک تھام کرنے میں مدد لی جائے گی۔ تاہم قانون سازی میں ان اقدامات کو ’’اسلام ازم‘‘ یا ’’اسلامی علیحدگی پسندی‘‘ کے تدارک سے منسلک کیا گیا ہے۔اس قانون سازی کے بعد خصوصا فرانس میں مساجد، ان کے انتظامات چلانے والی تنظیموں اور بچوں کی گھر میں تعلیم سمیت مسلمانوں کی کڑی نگرانی کے لیے ریاستی اداروں کو کئی اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جماعت نے اس نئی قانون سازی کے لیے زور و شور سے مہم چلائی تھی، جس کے نتیجے میں فرانسیسی قومی اسمبلی میں یہ بل بھاری اکثریت سے پاس ہوگیا۔ جہاں تک فرانسیسی صدر کی اسلام مخالفت کی بات ہے، تو اس حقیقت سے انکار نہیں کہ صدر ایمانوئیل میکرون اسلامو فوبیا میں مبتلا رہے ہیں۔ میکرون کا ماننا ہے کہ اسلام پوری دنیا میں 'بحران کا مذہب' بن گیا ہے۔ پیرس میں ایک استاد نے اپنے طلبہ کو پیغمبرِ اسلام سے متعلق خاکے دکھائے تھے۔ جس کے بعد اسے قتل کر دیا گیا تھا۔ ایسے وقت میں جب فرانسیسی صدر میکرون انتہا پسندوں کو موقع فراہم کرنے کے بجائے مرہم رکھ سکتے تھے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ انھوں نے اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کا انتخاب کیا۔میکرون نے تشدد کی راہ اپنانے والے دہشت گردوں، چاہے وہ مسلمان ہوں، سفید فام نسل پرست، یا نازی نظریات کے حامی، ان سب پر حملہ کرنے کے بجائے صرف اسلام پر حملہ کیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ صدر میکرون نے دانستہ طور پر مسلمانوں بشمول اپنے شہریوں کو اشتعال دلایا ہے۔فرانس میں ایک جریدے کی جانب سے پیغمبرِ اسلام کے خاکے چھاپنے، کچھ مسلمان شدت پسندوں کی جانب سے حملوں میں لوگوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے واقعات اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں فرانسیسی صدر کے بیانات کے بعد فرانس میں صورتحال بتدریج کشیدہ ہوتی جارہی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران آزادیِ اظہار، سیکیولرازم اور فرانسیسی معاشرے کی بنیادی اقدار اور مسلمانوں کے رویے زیرِ بحث ہیں۔ کوئی خاکوں کی مذمت کر رہا ہے تو کوئی دہشتگردی کے واقعات کی۔ اس دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی واقعات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور آئے دن دہشتگردی کے حملوں میں عام لوگوں کی ہلاکت کے نتیجے میں فرانسیسی معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف انتہاہ پسندی اور نفرت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وطن عزیز کے مذہبی رہنماؤں اور دانشوروں کا یہ موقف حقیقت پر مبنی ہے کہ ان خاکوں کی اشاعت کا مقصد صرف مسلمانوں کو مشتعل کرنا اور ان کے جذبات کو بھڑکانا ہے۔ تاکہ اس ردعمل کے طور پر مغربی حلقوں کی مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دینے کا بہانہ ہاتھ آسکے اور اس کی آڑ میں مغربی طاقتیں امت مسلمہ کے خلاف صلیبی جنگ کے نئے محاذ کھول کر اپنے مذموم مقاصد پورے کر سکیں۔ یہ ایک سوچی سمجھی حرکت ہے۔ آخر صرف مسلمانوں کے خلاف ہی ایسی مذموم حرکات کا ارتکاب کیوں کیا جاتا ہے؟ فرانس میں مسلمانوں کو دہشت گردی سے کیوں جوڑا جاتا ہے اور پیغمبر اسلام کے متنازع اور ’گستاخانہ خاکے‘ شائع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس سے فرانس میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک بڑھے گا اور فرانسیسی شہری اب شدت پسند مسلمانوں اور عام مسلمان شہریوں میں کیسے فرق کر سکیں گے؟ ایسے امتیازی سلوک کی وجہ سے شدت پسندی میں نمایاں اضافہ اور اس کی بنیادی وجہ بنتا ہے۔ فرانسیسی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کی جانب سے ایسے مجوزہ قوانین کی مخالفت کی گئی تھی۔ جب کہ دوسری جانب دنیا کے 13 ممالک سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی 36 غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد نے اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق میں اس قانون سازی اور فرانس میں مسلمان مخالف اقدامات کے خلاف اپیل دائرکر رکھی ہے۔دنیا بھر کی نمایاں حقوق انسانی کی تنظیموں نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ فرانس میں مسلمانوں کے خلاف دو دہائیوں سے جاری ریاستی اقدامات روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ان 36 تنظیموں کے اتحاد کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی سے متعدد بنیادی حقوق سلب کرلیے گئے ہیں۔موجودہ قانون سازی کے ذریعے فرانس نے اپنے طرز کے سیکیولرزم (لیست) کو ’ہتھیار بند‘ کرلیا ہے اور مسلمانوں کی سیاسی و مذہبی سرگرمیوں میں ریاستی مداخلت کا جواز فراہم کیا جارہا ہے۔ عالمی تنظیمیں ایسی قانون سازی کے نفاذ کو روکنے کے لیے مداخلت کریں کیوں کہ فرانس کے قانون میں اس امتیازی سلوک سے بچاؤ کا کوئی موثر طریقہ دستیاب نہیں ہے۔ فرانس میں 50 لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ماضی میں فرانسیسی نوآبادیات رہنے والے افریقی ملک الجیریا سے ہے۔ فرانس کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف مختلف قوانین ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ تاہم گذشتہ برس توہین آمیز خاکوں کی اسکول میں تشہیر کرنے والے استاد کے قتل کے بعد سے فرانس میں اسلام کی مخالفت کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے اور یہ قانون سازی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔