تنخواہوں میں اضافہ مگر پنشنرکہاں جائیں
ملک بھر سے وفاقی اور صوبائی ملازمین اور انکی تنظیموں نے مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافے کیلئے اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ اس دھرنے میںمختلف تنظیمیں جو ملازمین اور مزدوروں کی نمائندگی کررہی تھیں انہوں نے اسلام آباد میں اپنے مطالبات کے حق میں جلوس اور دھرنا دیا۔ وہ ان کے جذبے کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ تین روز ہ اس دھرنے میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سرکاری ملازمین کی جانب سے لوگ زخمی ہوئے ۔ تنظیموں کے رہنمائوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ملازمین بمقابلہ ملازمین ایک دوسرے سے گریبان چاک کررہے تھے ۔ دونوں طرف سے لہولہان ملازمین تڑپ رہے تھے ۔ آنسو گیس کے شیلوں سے سڑکیں بھری ہوئی تھیںاور دھواں بادل بن کرکے جڑواں شہروں پر سایہ مگن تھا۔ حالات میںکشیدگی بڑھی تو حکمراوں کو مذاکرات کا خیال آیا۔ مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے بالا ٓ خر باہمی رضام ندی سے دھرنا ختم ہوا اور مظاہرین امن سے اپنی منزلوں کو روانہ ہوگئے ۔ملازمین کی طرف سے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کوئی اچانک نہیں تھا۔ گزشتہ دو سالوں سے ان کا احتجاج جاری تھا۔ کئی بار اسلام آباد گئے مذاکرات ہوئے اور وعدہ فروا کے ساتھ واپس گھروں کو روانہ ہوجاتے ۔ اس بار کلرکوں کو تنظیموں کے ساتھ دیگر تنظیمیں نئے نام سے وجود میں آئیں جس میں دفا قی اور صوبائی ملازمین کے ساتھ ریٹائرڈ ملازمین کی تنظیم بھی شامل تھی۔ اتنے بڑے مطالبات پر غور کرنے کیلئے جبکہ صوبائی ملازمین اپنے مطالبات کیلئے صوبائی حکومتوں سے رجوع کریں کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ایسے تمام معاملات صوبائی حکومتیں دیکھتی ہیں۔ تنخواہوں میں اضافہ اور ٹائم سکیل ترقیاں یا اس سے متعلق دیگر مطالبات صوبائی حکومتیں فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں وفاقی ملازمین کیلئے 25فیصد تنخواہوں میں اضافے کی ایک یادو اشت لیکر ملازمین منشر تو ہوگئے لیکن یہ یاد رہے کہ سرکاری با قاعدہ نوٹیفیکیشن جو محکمہ خزانہ سے جاری ہوتا ہے وہ تاحال جاری نہیں ہوا۔ دوسری طرف پنجاب حکومت کی طرف سے بھی ایک ایسا مراسلہ جاری ہوا ہے جو جعلی کہا جارہا ہے ۔ دیگر صوبوں نے ایسے مطالبات اور وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کی تجویز کو درخوراعتنا نہیں سمجھا ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام ملازمین کے ساتھ ایک کھیل کھیلا گیا ہے تاکہ آئندہ بجٹ تک مطالبات اور وضاحتیں جاری رہیں ۔حکومت پاکستان یہ سمجھتی ہے کہ ملک کے معاشی حالات ان کو ورثے میں ملے ہیں اور یہ حکومت جتنا قرض لے رہی ہے وہ سالہاسال سے لیے گئے قرضوں اور سود پر واپس کررہی ہے ۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ ایسا ہی ہوگا۔ حکومت بہتری کی جانب گامزن ہوگی ۔ کیا عمران خان اپنے وعدے بھی بھول چکے ہیں وہ تو غریبوں اور مشکل حالات میں زندگی بسر کرنے والوں کو ’’اوپر اٹھانے ‘‘ کی بات کرتے تھے اور اب بھی کررہے ہیں ۔ باہر سے لیے گئے قرضوں کو پرانے قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی کیلئے کررہے ہیں تو پھر ہر ماہ دو دفعہ پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ، بجلی کی قیمتوں میں اضافے، گیس کی قیمتوں میں اضافے، عوام پر ہر روز لادا جانے والا بوجھ کیوں ہے ؟ ،آٹا ، چینی، دالیں ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے ۔ وزیر اعظم صاحب ! آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ لوگوں پر باالخصوص تنخواہ دار طبقے پر کیا گزررہی ہے ۔ آپ سے بہت امیدیں تھیں مگر آپ نے وہ امیدیں وہ مان توڑ دیا ہے ۔ لگتا ہے کہ تحریک انصاف نے اگلا الیکشن نہیں لڑنا۔ عوام میںشاید نہیں آنا۔ اگر ایسا ہے تو پھر ان کا فیصلہ درست ہوگا۔ اگر واپس عوام میں آنا ہے تو جواب دہ بھی ہونا پڑیگا۔ ملازمین کی تمام تنظیمیں سمجھتی ہیں کہ آئندہ بجٹ سے پہلے شاید کچھ بھی حاصل نہ ہو اور اسی طرح سرکاری اور صوبائی ملازمین اپنے وفاقی اور صوبائی داراالحکومتوں میں پھر احتجاج کریں گے۔ دوبارہ دھرنا ہوگا تو شاید ان کے مطالبات کسی حد کت تسلیم ہو سکتیں۔ یہاں پر وفاقی اور صوبائی کی تنظیموں سے ریٹائرڈ ملازمین کا گلہ بھی ہے کہ وہ اپنے مطالبات میں پنشنر کیلئے آواز بلند نہیں کرتے۔ یہ طبقہ سب سے زیادہ متاثرہ ہے ۔ یہ طبقہ بڑھاپے میں اپنی اولاد کی طرف دیکھتے ہیں جو خود کم آمدنی کی وجہ سے اپنے بچوں کیلئے بمشکل روزی روٹی کا بندوبست کرپا تے ہیں ۔ اگر ریٹائرڈ ملازمین کو بھی انسانوں کی بستی کا باشندہ سمجھ لیا جائے تو انہوں نے بھی اپنی بقیہ زندگی گزارنی ہے گزر تو جائیگی لیکن بروز محشر حکمرانوں کے گریبانوں تک ان کا ہاتھ ہوگا اور سرکاری وفاقی اور صوبائی ملازمین کے رہنمائوں کو بھی جواب دینا ہوگا کہ آپ نے اپنے بوڑھے ، عمر رسیدہ پنشنر کیلئے کچھ نہیں کیا۔ حکمرانوں سے ریٹائرڈ ملازمین کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان کی پنشن میں ہر سال اضافہ کیا جائے ۔