اُمت مسلمہ اور طیب اردگان ،مہاتیر محمد ،عمران خان
مسلمانوں کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ہر دور ہر زمانے میں انہیں راہنما یا لیڈر ملے ہیں ۔۔یہ قیادت سے محروم کبھی نہیں رہے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے پسندیدہ دین کی راہ پر چلنے والوں کی راہنمائی اور انہیں متحد و یکجاں رکھنے کی غرض سے انہیں پیغمبران، اولیاء کرام اور بزرگان سے ہمیشہ نوازتے رہے ہیں اور ان نوازشات کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ یہ ہستیاں انہیں نہ صرف اللہ کے دین پر کاربند رہنے بلکہ غیر مسلموں یعنی کفار کی چیرہ دستیوں اور ظلم سے انہیں بچانے کے ساتھ ساتھ کیخلاف جہاد بھی کریں جس کا مقصد دین اسلام کی مزید ترقی و ترویج اور پھیلاؤ ہے ۔آج سے چودہ سو سال پہلے سے بھی پہلے یا چلئے رہنے دیتے ہیں بات لمبی ہو جائے گی صرف چودہ سو سال پہلے کی بات ہو جائے کہ چودہ سو سال پہلے کے مسلمانوں کے راہنما کا زکر مبارک کیا جائے تو حضور ِ ؐ زہن میں آتے ہیں جو اس سے پہلے کے تمام مسلم راہنماؤں یعنی پیغمبران اسلام کے سلطان قرار پاتے ہیں ۔ان کے زمانے میں اسلام
مکمل ہوا ،جس کے بعد تمام مسلمان نبی آخرزماں ؐ کے اُمتی کا درجہ پا گئے اور یوں یہ اُمت بتدریج آگے بڑھتی رہی اور تاقیامت بڑھتی چلی جائے گی ۔ پوری اسلامی دُنیا کا احاطہ کئے بغیر صرف برصغیر پاک وہند کا جائزہ لیا جائے تو اس میں سر فہرست صلاح الدین ایوبی ، شیر شا ہ سوری ،ظہیر الدین بابر،محمد بن قاسم ،سلطان محمود غزنوی حید رعلی اور ٹیپو سلطان جیسے نڈر دلیر اور اللہ کی خاطر جان قربان کرنے والے بڑے قائدین کے نام آتے ہیںجن کے دور میں ایک طرف مسلمانوں کی زندگیاں محفوظ رہیں تو دوسری طر ف فتوحات کا سلسلہ بھی جاری رہا جو اسلام کے پھیلاؤ کا زریعہ بنتا رہا ۔وقت کا پہیہ یوں ہی چلتے چلتے دور جدید کی طرف آکر ہمیں اُمت مسلمہ کے اُن قائدین کی جھلک دکھا تا ہے جنہوں نے اُمت مسلمہ کی بھکری ہوئی قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر کہ اُن کے وسائل اُ ن ہی کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرنے اور انہیں غیر مسلم طاقتوں یعنی کفار کیخلاف متحد ہونے کی کوشیشیں شروع کیں ۔اس سلسلہ میںسب سے پہلی سربراہ ستمبر9 196کو رباط میں منعقد ہوئی جس کے بعددوسری سربراہ کانفرنس فروری 1974کو لاہور میں،تیسری سربراہ کانفرنس 1981مکہ اور تا ئف سعودی عرب میں اور چوتھی سربراہ کانفرنس جنوری 1984کو کاسا بلانکا میں منعقد ہوئی ۔اِن چار وں میں سے دوسری کانفرنس جو لاہور میں ہوئی کا زکر مگر مختصر کرنا چاہتے ہیں کہ یہی وہ کانفرنس تھی جواُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی نگرانی میں منعقد ہوئی۔ اس میں کچھی نئے اور جاندار فیصلے بھی کئے گئے جن میں سے ایک یہ کہ تمام عرب ممالک اپنا تمام پیسہ جو امریکہ سمیت متعدد غیر مسلم ملکوں کی بنکوں میں پڑا سڑ رہا ہے ایک نئی اسلامی بنک بنا کر اس میںجمع کیا جائے اور یہ تمام پیسہ مسلمان ممالک اپنی ہی عوام اور اپنے ہی ملکوں کی ترقی پر خرچ کریں جن پر اس وقت مغرب مزے کر رہاہے۔ اسی طرح 1984کو منعقد ہونے والی اسلامی سر براہ کانفرنس کے ٹھیک چھتیس سال بعد دسمبر2019کو ملائیشیاء کے شہر کوالامپور میں منعقد ہوئی جس میں 56اسلامی ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی جبکہ پاکستان اس کانفرنس میں بوجہ شرکت سے قاصر رہا ۔چھتیس سال کے طویل عرصہ کے بعد منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے انعقاد پر غور کیا تو ہمیں یوںلگا کہ جیسے ایک طویل سیاہ رات کے بعد دن کا اُجالا اچانک نمودار ہو ا ہو ۔اس خوشی کی وجہ یہ
ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی ایک تنظیم او آئی سی کے نام سے کام تو کررہی ہے مگر جہاں دیگر بیدار مغز مسلمان مفکرین دانشور و اہل قلم حضرات اس کی مجموعی کارکردگی سے ناخوش معلوم پڑتے ہیں وہاں ہم بھی او آئی سی کے موجودہ کردار و طریقہ ء کار سے مطمئن نہیں ہیں ،اس لئے کہ اس تنظیم نے آج تک عرب تو کجا کسی غیر عرب ملک کے مسلمانوںکے حقوق نہ ہی مسائل کے حوالے سے کوئی کام کیا ہے نہ ہی عالمی سطح پر اپنی کوئی آواز بلندکی۔اس کی ایک نہیں کئی متعدد وجوہات ہیںجن میں جھانکنے کی کوشش کی جائے تو گہرائی تک سیاہ اندھیرے کے سو ا کچھ دکھائی نہیں دیتامگر جیسا کہ اللہ رب العزت نے ہر دور میں مسلمانوں کیلئے راہنما ؤں کا انتخاب کیا ہے تو موجود ہ وقت میں کہ جب ہر سُومسلمان افتاد و الم کا شکار ہیں مگر قیادت اپنے اپنے مفادات کا طول گلے میں ڈالے مسلم دشمنوں کے گلے میں سونے کے ہار پہنا رہی ہے تو اس اندھرے میں رجب طیب اردگان ،مہاتیر محمد او ر عمران خان ایسے چہرے ہیں جو اس اندھیرے کو نہ صرف دور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ اُمت مسلمہ کو اُس کا چھنا ہوا عہد بھی واپس دلا سکتے ہیں۔ہمیں وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ ء ملائشیاء کے موقع پر ان کے خیالات سن کے خوشی ہوئی جن میں انہوں نے دسمبر میں ہونے والی کوالا المپور کانفرنس میں شرکت نہ کئے جانے پر دلی افسوس
ظاہر کیا بلکہ آئندہ ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کی یقین دہانی بھی کروائی۔حقائق کی نظر
سے دیکھا جائے تو طیب ا ردگان مہاتیر محمد اور عمران خان میں ہمیں و ہ دینی صفات و لگاؤ صاف نظر آرہا ہے جس کی اُمت مسلمہ کو اس وقت ضرورت ہے ۔یہ سچ ہے کہ ملک میں مہنگائی کے ہاتھوں عوام پریشان ہے اور اپوزیشن بھی خوش نہیں اور وزیراعظم عمران خان کو اسی وجہ سے مسائل درپیش ہیں مگر دوسری جانب ملک و قوم کے لئے یہ کسی اعزا ز سے کم نہیں کہ ان کے یہی وزیراعظم عمران خان عالمی سیاست میں طیب اردگان اور مہاتیر محمد کے شانہ بشانہ اُمت مسلمہ کی خدمت کے حوالے سے کامیاب کھڑے دکھائی دے رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ کسی کی ناراضگی کی پرواء کئے بغیر اور بناء کسی مصلحت کے اگلی اسلامی سربراہ کانفرنس میں ضرور شریک ہو ں گے کیونکہ یہی وہ واحد اسلامی سربراہ مملکت ہیں جنہوں نے اسلامو فوبیا کے خلا ف آواز بلند کی ۔