مذہب، دولت اور آرٹ
دنیا کے کسی بھی کونے میں آرٹ اسی وقت پنپا اور پھلا پھولا ہے جب اس علاقے کے حاکموں، مالدار لوگوں اور مذہبی رہنمائوں نے اس کی حمایت اور سرپرستی کی ہے۔ اسلام چونکہ جھوٹے خدائوں، بت پرستی اور تصویر پرستی کے خلاف تھا اس لیے تصویریں اور مجسمے بنانے کو خلاف شرع قرار دیا گیا لیکن اس پابندی کے باوجود اسلامی دنیا میں آرٹ کے دروازے بند نہیں ہوئے بلکہ بادشاہ اور امراء اپنے محلات میں جانداروں کی اشکال والے آرٹ سے محظوظ ہوتے رہے تھے۔ دنیا کے بہت سے عجائب گھروں میں اسلامی دنیا میں بنائے جانے والے ایسے آرٹ کے نمونے رکھے ہوئے ہیں، جن کی زیبائش تصویروں، بیل بوٹوں اور خطاطی سے کی گئی ہے۔ کاغذ پر بنائے گئے منی ایچر آرٹ کے نمونے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عہد وسطیٰ کی اسلامی دنیا میں دولت مند طبقات ہر قسم کے آرٹ کی سرپرستی کر رہے تھے۔ مغل درباروں میں کلاسیکی رقص و موسیقی اور شاعری کی محفلیں سجتی رہتی تھیں۔ حتیٰ کہ عظیم شاعر مرزا غالبؔ کو بھی مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کہنا پڑاتھا:
ہوا ہے شاہ کا مصاحب پِھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب ؔ کی آبرو کیا ہے
اسلامی دنیا میں عام لوگوں کے سامنے جو آرٹ پیش کیا گیا وہ جیومیٹری کی اشکال، بیل بوٹوں اور خطاطی کے امتزاج سے بنایا گیا تھا جس کا عمارتوں میں استعمال کیا گیا۔ فن تعمیرات نے اسلامی تہذیب کو ایک نئی شناخت دی، اسلامی فن تعمیر کی تین نمایاں چیزیں مینار، گنبد اور محراب تھے۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود دنیا کی ہر مسجد میں یہ تینوں چیزیں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ عہد وسطیٰ کی اسلامی تہذیب میں جو آرٹ تخلیق کیا گیا وہ آج بھی دولت مند ممالک کے سیاحوں کو کھینچ رہا ہے۔ آج اگر ہم شاہی قلعے میں شیش محل دیکھ کر حیران ہوتے ہیں تو یہ حیرانی شیش محل بنانے والے انجینئرز اور انٹیریئر ڈیزائنرز اور کاریگروں کے ہنر کو دیکھ کر ہوتی ہے تاہم اگر شاہجہاں نے اپنے اعلیٰ ذوق کی تسکین کی خاطر رقم خرچ نہ کی ہوتی تو شیش محل بھی نہ بنتا۔ شاہی قلعے میں کئی جگہ دیواروں پر تصاویر بھی بنی ہوئی نظر آتی ہیں جنہیں کچھ لوگوں نے مغل بادشاہوں کا غیر اسلامی فعل سمجھ کر کھرچ بھی دیا ہے۔ لوگوں کے اس رویے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں آرٹس کی عمومی مخالفت کے لیے مذہب کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میںمختلف فنون کے فروغ کے لیے مذہبی رہنمائوں اور علماکی سرپرستی کی ضرورت ہوگی۔ پرنٹ میڈیا سے گریز کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنمائوں میں ڈیجیٹل میڈیا کی قبولیت موجود ہے جس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز عکسی اور غیر مستقل تصویر پیش کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل آرٹس ، اینی میشن اور ٹیلی وژن وغیرہ کے لیے مذہب رکاوٹ نہیں بنے گا بلکہ اسلام کے فروغ کے لیے ایک موثر ذریعہ بنے گا۔ تاہم موسیقی کے حوالے سے اب بھی سوالات موجود ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام میں موسیقی اور گلوکاری ممنوع ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیا کے خلیفہ حضرت امیر خسرو بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے سات سو برس پہلے فارسی، ترک، عرب اور ہندوستانی موسیقی کو ملا کر قوالی کا آغاز کی جس کی روایت نہ صرف اپنی اصلی شکل میں اب تک برقرار ہے بلکہ قوالوں کی پہلی جماعت کی آل اولاد اب بھی اس فن سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ حضرت امیر خسرو نے ہی آلات موسیقی کے بغیر ترانہ گانے کے اصول بنائے اور ستار جیسا ساز ایجاد کیا۔کہا جاتا ہے کہ امیر خسرو نے ہی طبلہ ایجاد کیا تھا جس کے بغیر ہندوستانی موسیقی ادھوری تصور کی جاتی ہے۔آج اگریہاں مزاروں پر فقیر دھمال ڈالتے ہیں تو ترکی میں درویش مولانا روم کے کلام پر محو رقص نظر آتے ہیں۔ صدیوں سے پوری اسلامی دنیا میں صوفیانہ کلام گایا جا رہے ہیں۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ صدیوں پہلے گلوکاری اور موسیقی کے شرعی طور پر جائز یا ناجائز ہونے پر ضرور بحث ہوئی ہوگی اور کسی نے لحن دائودی کا تذکرہ کیا ہوگا جس کے بعد صوفیانہ کلام گانے کی ابتدا ہوئی ہوگی۔ تیرھویں صدی عیسوی میں قصیدہ بردہ شریف لکھا گیا تھا جس کی طرز مصر کے امام البوصیری نے ترتیب دی تھی۔ اگر کوئی نعتیہ کلام آٹھ سو سال بعد بھی اپنی اصل دھن پر دنیا بھر میں پڑھا جا رہا ہے تو اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام البوصیری موسیقی اور گائیکی کے فن سے کس قدر واقف تھے۔ اسی طرح عظیم سائنسدان ابن الحیثم نے ایک ہزار برس پہلے موسیقی کی طبیعات پر کتاب لکھی تھی لیکن افسوس کہ وہ کتاب ضائع ہو گئی۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے حکمراں طبقات کو بھی آرٹ انڈسٹری کے حجم اور اہمیت کا اندازہ نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کے پاس ایسا کوئی صاحب بصیرت شخص ہے جو پاکستان میں مختلف آرٹس کے شعبوں کو منظم اور فعال بنا سکے۔ پاکستانی حکومتوں کی آرٹس اور دستکاریوں سے دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے 225 ملین ڈالر سالانہ کی دستکاریاں برآمد ہوتی ہیں۔ پاکستانی حکومتوں کی عدم دلچسپی کا نتیجہ ہے کہ پاکستانی ہنر مند دستکار غربت اور مشکلات کا شکار ہیں اور وہ اپنی پروڈکٹ بہتر بنانے کے قابل نہیں ہیں۔ پاکستانی ہنر مند دستکار چھوٹے چھوٹے دور دراز دیہاتوں میں ہیں لیکن نہ تو انہیں اپنے کام کا صحیح معاوضہ مل رہا ہے اور نہ ہی وہ بڑی مارکیٹوں تک پہنچ پا رہے ہیں۔ اگر حکومت آن لائن بزنس اور پاکستان پوسٹ کے اشتراک کو مضبوط بنانے پر توجہ دے تو دور دراز علاقوں میںرہنے والے دستکاروں کے لیے شہری مارکیٹوں کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
The Art Basel and UBS Global Art Market Report کے مطابق 2018ء میں عالمی آرٹ مارکیٹ کا حجم 67.4 ارب ڈالر تھا۔ جس میں گزشتہ دس سال کے دوران 9 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آرٹ مارکیٹ میں سب سے بڑا حصہ امریکہ، برطانیہ اور چین کا ہے جو مجموعی طور پر آرٹ مارکیٹ کا 84 فیصد کنٹرول کرتے ہیں۔ عالمی آرٹ مارکیٹ میں امریکہ کا حصہ 44 فیصد ہے جبکہ برطانیہ 21 فیصد اور چین 19 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ 2018ء میں آرٹ کی آن لائن سیلز 6 ارب ڈالر تھیں جس میں 11 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ جبکہ نیلام گھروں اور آرٹ گیلریز سے 29.1 ارب ڈالر اور آرٹ کی نمائشوں سے 16.8 ارب ڈالر کے فائن آرٹ اور سجاوٹی فن پارے فروخت ہوئے تھے۔اگر آرٹ کی عالمی صنعت میں پینٹ، پنسل، پیپر، شیشہ، لکڑی، کپڑا، دھاتیں اور ایسی ہی دوسری آرٹ میں استعمال ہونے والی اشیاء تیار کرنے والی سپورٹنگ انڈسٹریزکے ساتھ ساتھ ؔ ڈیجیٹل آرٹس میں استعمال ہونے والے آلات، کیمرے اور کمپیوٹرز وغیرہ بھی شامل کر لیے جائیں تو دنیا بھر میں آرٹ اور آرٹ سے منسلک صنعتوں کے اصل کاروباری ہجم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 30 لاکھ افراد کا روزگار براہ راست آرٹ کے شعبے سے وابستہ ہے۔ ویب سائٹ artfacts.net کے مطابق دنیا بھر میں معلوم آرٹسٹس کی تعداد 668,624 ہے، ٹاپ 150 مصوروں میں ایک بھی مسلمان مصور نہیں ہے جبکہ دنیا کے سب سے اچھے آرٹسٹ امریکی ہیں۔ ایک طرف جہاں بڑی عمر کے لوگ مہنگی پینٹنگز اور فن پاروں میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں وہیں نوجوانوں اور خواتین میں بھی آرٹ کے نمونے خریدنے کے رجحانات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ایشیا میں سنگاپور، ہانگ کانگ اور جاپان کے لوگوں میں آرٹ نمائشوں سے فن پارے خریدنے کا رجحان زیادہ ہے۔امریکی معیشت پر پوری آرٹ انڈسٹری کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ امریکہ کے جی ڈی پی کا 4.2 فیصد ہے اور مختلف قسم کے آرٹس اور اس سے منسلک انڈسٹریز اور آرٹ کی سرگرمیوں سے مجموعی طور پر 764 ارب ڈالر سالانہ کا بزنس کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اتنی بڑی عالمی آرٹ انڈسٹری میں اپنا حصہ کیسے نکال سکتا ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ یورپ میں ماڈرن آرٹ کا ارتقا بھی دولت مند افراد، بینکاروں، چرچ اور حکمرانوں کی سرپرستی سے ہوا تھا جبکہ مسلم تہذیب میں بھی حکمرانوں نے آرٹس سے منسلک لوگوں کی سرپرستی کی تھی لہٰذایہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بھی حکومت کی سرپرستی اور بینکوں کے اشتراک کے بغیرآرٹسٹ اور آرٹس کو پذیرائی نہیں مل سکے گی۔ حکومت کو خاص طور پر ان فنون پرتوجہ دینا ہوگی جو دم توڑتے جا رہے ہیں۔ اسلامی آرٹس میں خطاطی کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی عرب ممالک اور ایران میں خطاطی امراء کا شوق ہے لیکن پاکستان میں صادقین کے بعد کوئی بڑا نام سامنے نہیں آیا۔ کم از کم مدرسوں کو فن خطاطی اور دوسرے اسلامی آرٹس کی تجدیداور فروغ کی ذمہ داری سنبھال لینی چاہیئے ۔ اسی طرح مغلیہ ٹائل اور جالیاں وغیرہ بنانے کا ہنر شاید اگلی نسل میں منتقل نہیں ہو سکے گا جس کی وجہ یہ ہے کہ اس فن سے بہتر روزگار نہیں ملتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہاتھ کا کام ہونے کی وجہ سے بہت مہنگا ہے۔ اگر ماربل ٹائلز کی کٹائی کا کام جدید تھری ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے کیا جائے تو نہ صرف لاگت میں کمی اور معیار میں بہتری لائی جا سکتی ہے بلکہ اٹلی اور اسپین کے معیار کے ٹائلز تیار کیئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح چین اور مشرق بعید میں گندھارا آرٹ کی بہت بڑی مارکیٹ موجود ہے جہاں قدیم گندھارا آرٹ کی نقول آسانی سے فروخت کی جا سکتی ہیں۔ حکومت کو صرف اتنا سمجھنا ہوگا کہ آرٹ، خوشحالی اور سیاحت سے منسلک ہے اگر حکومت ملک میں سیاحت کے فروغ میں سنجیدہ ہے تو اسے مختلف فنون کے فروغ کے بارے میں بھی کوئی واضح پالیسی بنانا ہوگی۔