پیر ‘ 29 ؍جمادی الثانی 1441ھ ‘ 24 ؍ فروری 2020 ء
ن لیگ اور پیپلز پارٹی رونا وائرس کا شکار ہیں۔ فیاض الحسن
کرونا وائرس کے ہم وزن یہ رونا وائرس کی تخلیق کا سہرا فیاض الحسن کے سر جاتا ہے جو واقعی ان کی بذلہ سنجی کا خوبصورت نمونہ ہے۔ اس پر تو
کیا بات ہے ریاضؔ تمہارے کلام کی
رنگینئی کلام کے قربان جائیے …
کہنے کو جی چاہتا ہے بس شاعر کے نام کی جگہ ان کا نام فیاض لکھنا ہو گا۔ کرونا ، رونا ، بسورنا، نچوڑنا، بچھونا، اوڑھنا، بھاگنا، دوڑنا یہ سب ہم وزن ہیں۔ فواد چودھری نے گزشتہ روز بھاگنے دوڑنے پر طبع آزمائی کی ہے۔ اپنے ایک چیختے چنگاڑتے بیان میں مگر اس میں وہ شاعرانہ نزاکت نہیں آئی جو اس رونا وائرس والے بیان میں ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) والے دونوں رونے دھونے پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ اگر وہ اتنا ہی زور حکومت کو زچ کرنے کے لیے ہی سہی عوام کو لاحق مسائل ، مہنگائی ، اور بے روزگاری پر دیتے تو آج حکومت کو بھاگنے دوڑنے پرمجبور کر سکتے تھے مگر وہی بات یہ اعلیٰ طبقوں کے نمائندے کیا جانیں غریبوں کے لیے زندگی کتنی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ یہ تو اگر بھاگیں اور دوڑیں گے تو وہ بھی اے سی والی گاڑیوں اور اے سی والے جہازوں میں۔ عام آدمی نے تو ننگے پائوں تارکول کی ادھڑی ہوئی سڑکوں پر ہی رونا دھونا اور بھاگنا دوڑنا ہوتا ہے۔ بہرحال اب پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) فوری طور پر اس رونا وائرس سے نجات کے لیے کسی زبردست فارمولے پر عمل کر سکتے ہیں جو لگتا ہے مولانا فضل الرحمن کے پاس ’’ماہتابی‘‘ ٹوٹکے کی شکل میں ہی موجود ہے جس سے یہ دونوں کتراتے ہیں…
٭٭٭٭
راولپنڈی میں پتنگ بازی کے الزام میں نابینا گرفتار، عدالت نے سب انسپکٹر کو معطل کر دیا
یہ تو عدالت کا حق بنتا ہے کہ جرم بے گناہی میں نابینا شخص کو گرفتار کرنے والے ان تمام پولیس والوں کو معطل کر دے جو اس واردات میں شریک تھے۔ کیا اب بھی کسی کو ہماری پولیس کی بلاتفریق کارروائی پر شک ہے۔ اگر پولیس مزید مستعدی کا مظاہرہ کرتی تو بازوئوں سے محروم کسی شخص کی بھی پتنگ اُڑاتے ہوئے گرفتاری ڈال سکتی تھی مگر لگتا ہے کوئی ٹنڈا شخص ان کے ہتھے نہیں چڑھا۔ معلوم نہیں پولیس نے بسنت منانے والوں کی پکڑ دھکڑ کا معیار کیا رکھا ہوا تھا ایک بھی فائرنگ کرنے والا ہاتھ نہ آ سکا۔ بہرحال یہ بھی دیکھ لینا چاہئے گرفتار ہونے والا بسنت کا اندھا نہ نکلے، جیسے چوک میں بھیک مانگنے والے اندھے اور لنگڑے بھکاریوں کے پیچھے پولیس لگے تو وہ آنکھیں کھول کر بھاگنا شروع کر دیتے ہیں، سارا دن راولپنڈی میں بسنت کے موقع پر جو طوفان بدتمیزی برپا ہوا اس نے تو لاہوری بسنت کی یاد تازہ کرا دی جہاں بندش سے پہلے اسلحہ کا ناجائز استعمال اور ہوائی فائرنگ بھی دھاتی تار کے علاوہ بسنت پر پابندی کی وجہ بنا تھا۔ کوئی لاکھ دعوے کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی اندھے کودیکھتا ، لنگڑے کو چلتا، گونگے کو بولتا ہوا دکھا سکتا ہے تو وہ کرامت صرف اور صرف ہماری پولیس ہی دکھا سکتی ہے۔ اخبارات اور میڈیا گواہ ہے کہ گداگروں کے خلاف جب بھی پولیس نے کارروائی کی تو اندھے دیکھنے لنگڑے دوڑنے اور گونگے بولنے لگتے ہیں۔
نواز شریف بھی سلیکٹڈ تھے: بلاول زرداری
کیا یہ زبان ہوتی ہے اپوزیشن اتحاد کا دعویٰ کرنے والے اپوزیشن رہنما کی۔ یہ تو راجہ پورس کے ہاتھی والا معاملہ بن سکتا ہے جو بدحواسی میں پلٹے تو اپنی ہی فوج کو روندتے گزر گئے۔ ایک ہی سانس میں نواز شریف حکومت کو سلیکٹڈ قرار دینے والے بلاول دوسرے ہی سانس میں کس طرح حکومت کیخلاف اپوزیشن اتحاد کے زیراہتمام کسی تحریک کے لئے شہباز شریف کی جلد واپسی کی بات کرتے ہیں جس شاخ پر بیٹھے ہوں اس کو کاٹا نہیں جاتا۔ اگر بلاول جی تاریخ پر نظر ڈالیں تو نواز شریف کو بقول بلاول جن قوتوں نے سلیکٹ کیا تھا ، انہوں نے ہی اس سے قبل آصف زرداری کی حکومت کو سلیکٹ کیا تھا اور پھر انہی کے دور میں نواز شریف کوسلیکٹ کر کے حکومت ان کو دی گئی تو پیپلز پارٹی اور آصف زرداری دیر تک منصفانہ الیکشن کروانے پر مبارکبادیں وصول کرتے رہے۔ اب وہی بتائیں یہ فری الیکشن تھے یا سلیکشن۔ بلاول جی سے اُمید نہیں تھی کہ وہ جوش جذبات میں آ کر اپنے ہی اتحادی کیمپوں پر گولہ باری کریں گے۔ جب طاقتور غنیم سامنے مورچہ زن ہو تو کوئی بیوقوف ہی اپنے قلعے میں شگاف ڈالتا ہے۔ دیکھتے ہیں جواب میں مسلم لیگ (ن) کے گرم گفتار پرجوش ترجمان یا خود شہباز شریف کیا جواب دیتے ہیں۔ اس بیان سے تو شیخ رشید خوشی سے پھولے نہ سما رہے ہوں گے ان کا بس چلے تو وہ بلاول جی کا منہ چوم لیں…
٭٭٭٭٭
صبح کرتار پور جانے والا معصوم یاتری شام کو دہشت گرد بن کر لوٹتا ہے۔ ڈی جی پولیس بھارتی پنجاب
جب دشمن کو اور کچھ نہیں سوجھتا تو پھر وہ واہیات قسم کی الزام تراشی پر اُتر آتا ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر بھارت کو ڈرنا چاہئے اگر پاکستان نے کٹاس راج مندر اور ہنگلاج ماتا مندر بھی بھارتی یاتریوں کے لیے کرتارپور دربار صاحب کی طرح کھول دیئے تو پھر کیا ہو گا۔ پھر سکھوں کے ساتھ ساتھ بھارت کو ہندو یاتریوں کی دہشت گردوں کے روپ میں واپسی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر بھارت سرکار کیا کرے گی۔ ان ہزاروں ہندو دہشت گردوں کو کیسے سنبھالے گی۔ اتنا جھوٹ بولتے ہوئے ڈی جی پولیس بھارتی پنجاب کو کیا واقعی ذرا سی بھی شرم نہیں آئی۔ کہیں وہ سکھوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے دربار صاحب کرتارپور ماتھا ٹیکنے پر پابندی لگوانے کے چکروں میں تو نہیں۔ حالانکہ پہلے ہی سخت پوچھ گچھ کے بعد بھارت بہت کم سکھوں کو کرتار پور یاترا کی اجازت دیتا ہے جو تعداد روزانہ 4 یا 5 ہزار یاتریوں کی ہونی چاہئے۔ وہ بمشکل چند سو یاتریوں تک محدود ہو گئی ہے۔ اس سے بھارت کی کم ظرفی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ ایک پرخلوص مذہبی یاترا دوستی اور محبت کی علامت کو بھی دہشت گردی سے جوڑ رہا ہے۔ کیا کوئی تسلیم کرے گا ان کی خرافات کو۔ بھلا صبح 9 بجے کرتارپور آنے والا 4 بجے واپس جاتے ہوئے کس طرح تربیت یافتہ دہشت گرد بن سکتا ہے۔ صاف لگتا ہے بھارت کی کوشش ہے کہ کوئی سکھ پاکستان نہ جائے کیونکہ اس طرح وہ پاکستانیوں کی محبت جاننے اور بھارت کی اصلیت جاننے لگتے ہیں۔
٭٭٭٭٭