بچوں میں دماغی مسائل
رؤف کینیڈا
ایک مدت تک بچوں میں پڑھنے کی کمزوری کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکا گیا ان پر لیبل لگا کر یہ پڑھنے کے قابل نہیں ہیں ریسرچ نے ثابت کیا کہ اگر کوئی بچہ ہجے کرنے میں اٹکتا ہے تو ضروری نہیں کہ لفظوں کو سمجھنے میں بھی اسے مشکل پیش آتی ہو اور اگر کسی کو لفظوں کی ادائیگی میں مشکل پیش آتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے ان لفظوں کو لکھنا آسان ہو۔ریڈنگ ڈس ایبلٹی سے کہیں زیادہ مشکل کا سامنا لرننگ ڈس ایبلٹی کے حامل بچوں کو کرنا پڑتا ہے۔ وہ بچے جو بچپن میں ڈس لیکسک کے طور پر تشخیص ہوئے جب انہوں نے مشکلات پر قابو پاکر اعلی تعلیم حاصل کر لی مگر دماغ کا ٹیسٹ کرنے پر وہ نارمل دماغ سے مختلف نظر آیا، اس سے یہ ثابت ہے کہ دماغ کی بناوٹ کو نہیں بدلا جا سکتا صرف سیکھنے اور سکھانے کے طریقے بدلنے کی ضرورت ہے۔ پڑھنے میں مشکل پیش آنا ڈس لیکسیا کہلاتا ہے۔ ڈس لیکسیا کے حامل بچوں کے دماغ کی بناوٹ فرق دار ہوتی ہے لوگ ڈسلیکس بچہ کی مشکل کو مختلف نام سست، کند ذہن، موٹی عقل والا، ڈھیلا، اور بیوقوف دے کر اس مشکل کو اور بڑھا دیتے ہیں۔بچوں کو ریاضی کے نمبر پڑھنے اور سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے مثلا 17 اور 71 میں فرق نہ کر سکنا 031 کو 301 پڑھ جانا اس کے علاوہ + کو * لکھ دینا دماغی طور پر سادہ جمع اور منفی نہ کر سکنا۔ دیر تک نمبر 7 اور 9 کو الٹا لکھنا۔ لکھنے میں مشکل پیش آنے والا بچہ اپنے ہم عمر بچوں کی نسبت گندہ، آہستہ اور غلط لکھتا ہے۔ اگر ایک دن بہت زیادہ پریکٹس کے بعد وہ چند لفظ صحیح لکھ لے گا تو ضروری نہیں کہ اس کی دماغی وائرنگ اسے اگلے دن ج کو خ اور 9 کو 6 یا بی کو ڈی نہ دکھائے۔ اکثر ڈس گرافیا بچوں کو پنسل پکڑنے میں، لائن لگانے، قینچی سے کاٹنے میں اور سیدھا یا کاغذ کی صحیح سمت لکھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ذہنی اور جسمانی حرکات میں ہم آہنگی نہ ہونے والے بچوں کی بڑی تعداد جو ڈسلیکسیا کا شکار ہوتی ہے وہ اکثر ڈسپریکیا کا شکار بھی ہوتی ہے۔ ڈسپریکیا میں اکثر موٹر سکلز اتنی مؤثر نہیں ہوتیں۔ اعصابی اور جسمانی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث فٹ بال کو کک لگانے سے لے کر بھاگنے دوڑنے اور پنسل پکڑنے، لائن لگانے تک کے سارے کام ڈسپریکسک بچے کو عام بچوں کی نسبت مشکل لگتے ہیں۔
بچپن تجربات سے بھرپور ایک لیبارٹری کا نام ہے صرف لکھنا پڑھنا سیکھنے کا نام نہیں ہے بلکہ دوستیاں لگانے، غلطیاں کرنے، ہم جماعت بچوں کے ساتھ کھیلنے، کھیل میں ہار جیت کا مزہ لینے، شرارتوں کی جرات، سزا ملنے اور شاباش سننے کا نام ہے۔ لیکن لرننگ ڈس ایبلٹی کے حامل بچے اس سب سے محروم رہتے ہیں کیونکہ وہ 93% معلومات کو حاصل نہیں کر پاتے جو نہ صرف ان سرگرمیوں میں حصہ لینے میں معاون ہوتی ہیں بلکہ روز مرہ زندگی کے لیے بنیادی ضرورت ہیں۔ اس 93% میں اشاروں کو سمجھنا، موقع محل کا اندازہ لگا کر عمل کرنا، وقت سے آگے دیکھنے کی اور گزرے وقت سے سیکھنے کی صلاحیت ہونا، پیش آنے والی صورتحال کو سمجھنا اور اس کے مطابق عمل کی صلاحیت۔ایمری یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ ایل ڈی بچوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ وہ بغیر لفظوں کی زبان سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ہم لوگ صرف 7% لفظ استعمال کرتے ہیں اور بہت سی باتیں ہمارے انداز اور رویے سے دوسرے لوگ سمجھ لیتے ہیں۔ نفسیات کی زبان میں ایسے بچوں کو سماجی نفسیات کے مسائل کا شکار بھی کہا جاتا ہے، جن پر اگر بچپن میں توجہ نہ دی جائے تو وہ شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں سات فیصد افراد (تین عورتیں اور دو مرد) نفسیاتی طور پر سماجی اضطراب کا شکار ہیں۔ مثلاً دوسروں کے سامنے بول نہ سکنا، لکھ نہ سکنا، غیر منطقی خوف پال لینا، اس خیال میں رہنا کہ میرے اندر کوئی کشش یا خوبی نہیں کہ میں کوئی کام ڈھنگ سے انجام دے سکوں، وغیرہ وغیرہ، یہ سب مسائل بچپن کے حادثات واقعات باعث پیدا ہوتے ہیں لیکن لرننگ ڈس ایبلٹی کے مسائل ان سے بھی کہیں بڑھ کر ہیں۔ ماہرین بغیر لفظوں کی زبان کو اس طرح تقسیم کرتے ہیں۔جسمانی حرکات و سکنات مثلاً کندھے اچکانا، آنکھ مارنا، خاص انداز میں مسکرانا، ہاتھ کے اشارے سے کوئی پیغام دینے کی کوشش کرنا، نارمل افراد اکثر بغیر کوئی لفظ ادا کیے صرف اشارے سے اپنا مطلب واضح کر دیتے ہیں۔ نارمل بچے ماں یا استاد کے سنجیدہ چہرے کو ایک وارننگ سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔فاصلے کا تعین کرناانسانی فطرت ہے کہ ہم فاصلوں کو تعین ضروری سمجھتے ہیں۔ مثلاً لوگ ایک فاصلہ رکھ کر بات چیت کرتے ہیں۔ایل ڈی بچے آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ بدلنے والے لفظوں کا مطلب یا بات کے اندر چھپا طنز، سرد مہری اور گرم جوشی کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ایل ڈی بچے اکثر موسم اور موقع کی مناسبت سے کپڑوں کا انتخاب نہیں کر سکتے۔ ایل ڈی بچے سماجی رابطوں کا ادراک نہیں کر پاتے۔ اس لیئے اکثر لین دین کے معاملات میں ان کی حق تلفی ہو جاتی ہے یا پھر وہ اپننے ایبنارمل رویے سے دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں۔بچوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ان سماجی رویوں میں کمی کی اقسام کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ماہرین ایل ڈی بچوں کے معاشرے کا فعال رکن بننے کی راہ میں جن سماجی سرگرمیوں میں کمی کو بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔دوستی اور تعلقات راتوں رات پروان نہیں چڑھتے بلکہ آہستہ آہستہ ان میں پختگی آتی ہے۔ لرننگ ڈس ایبل بچے ان مراحل کو نہیں سمجھ پاتے۔ایل ڈی بچے موقع محل نہیں سمجھ پاتے۔لرننگ ڈس ایبلٹی میں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ دماغ ایک بات کو پسند نہیں کرتا لیکن کسی دوسرے نے وہ بات کی تو اس بچے نے بھی اس کو پیچھے دہرا دی۔ روز مرہ کے معاملات میں یاداشت کی کمیہوتی ہے سوائے ٹینشن اور ذہنی کرب کے۔ اکیلے پن کی اذیت لرننگ ڈس ایبل بچوں کو ضرور سہنی پڑتی ہے۔ والدین، استاد اور نارمل افراد بچوں کی اس تنہائی کو تکلیف کو نہ تو پوری طرح سمجھ پاتے ہیں اور نہ ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔